قولہم بافواہہم‘‘ یہ ان کافروں کی بکواس ہے۔ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’سبحانہ ان یکون لہ ولد‘‘ خدا پاک ہے اس سے کہ اس کے ولد ہو۔
ایک تو کفر اس پر ہٹ دھرمی
مرزا قادیانی کہتے ہیں کہ خدا فرماتا ہے: ’’فاذکروا اﷲ کذکر کم ابائکم اواشد ذکرا‘‘ پس تم خدا کی یاد کرو جیسا کہ تم اپنے باپوں کی یاد کرتے ہو۔ پس اس جگہ خدا تعالیٰ کو باپ کے ساتھ تشبیہ دی۔ (حقیقت الوحی ص۶۴، خزائن ج۲۲ ص۶۷)
معاذ اﷲ کیا تحریف قرآن ہے کہ اس آیت میں خدا کو باپ سے تشبیہ دی۔ ان سے کوئی پوچھے کہ کاف حرف تشبیہ لفظ ذکر پر داخل ہے یا لفظ آباء پر تشبیہ خدا کے ساتھ جب ہوتی جب یہ کہا جاتا اﷲ کابائکم خدا تمہارے باپوں کی طرح ہے۔حالانکہ کاف حرف تشبیہ ذکر پر داخل ہے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے۔ خدا کا ذکر اس کثرت وشوق سے کرو جیسا کہ تم اپنے باپوں کا ذکر کرتے ہو۔
یہاں ذکر کو ذکر سے تشبیہ دی، نہ کفار کے باپوں کو خدا سے۔ جس کی عربیت کا یہ حال ہو کہ شبہ اور مشبہ بہٖ کو نہ پہچانتا ہوں وہ فصاحت وبلاغت کا مدعی ہو۔ ایک بچہ شرح مائۃ عامل کا جانے والا اس سے زیادہ قابلیت رکھتا ہے۔
اچھا مرزا قادیانی اگر یہی بات ہے تو میں ایک مثال دیتا ہوں خفا نہ ہوں۔ کسی کی بی بی شوہر سے کہے کہ میرے ساتھ ایسی محبت کرو جیسی تم میرے بیٹے سے کرتے ہو۔(وہی مثال ہے۔) تو مرزا قادیانی اس کا اقرار کریں گے کہ اس کی بیوی نے اس کو اپنے بیٹے سے تشبیہ دی۔ یا کوئی اپنی والدہ سے کہے کہ تم ہماری یاد ایسی کرتی ہو جیسے ہماری بیوی۔ تو اس مثال میں کیا اس نے اپنی ماں کو بیوی سے تشبیہ دی۔ لاحول ولاقوۃ الا باﷲ عذر گناہ بدتر از گناہے۔
دوسری جگہ مرزا قادیانی کہتے ہیں کہ: خدا نے یہودیوں کا قول نقل کیا کہ : ’’نحن ابنو اﷲ واحباوہ‘‘یہودی کہتے ہیں کہ ہم خدا کے بیٹے ہیں اور پیارے۔ اس جگہ ابناء کے لفظ کا خدا نے رد نہ کیا کہ تم کفر بکتے ہو بلکہ یہ فرمایا کہ اگر تم خدا کے پیارے ہو تو پھر وہ تمہیں عذاب کیوں دیتا ہے اور ابناء کا دوبارہ ذکر نہیں کیا۔ (حقیقت الوحی ص۶۴، خزائن ج۲۲ ص۶۷)
یعنی خدا نے یہود ونصاریٰ کو بیٹا بنانا منظور کیا اس لئے رد نہ کیا۔ استغفر اﷲ کیا خدا پر کھلا بہتان ہے کہ خدا نے یہ فرمایا کہ: ’’اگر تم ہمارے پیارے۔‘‘یہ آیت کے کس جملہ کا ترجمہ ہے۔ پوری آیت سنو: ’’وقالت الیہود والنصاریٰ نحن ابنئو اﷲ واحباؤہ قل فلم