:’’ ہاں میں اس بات کااقرار کرتاہوں کہ میں نیک نیتی سے دوسرے مذاہب کے لوگوں سے مباحثات بھی کیاکرتاہوں اورایسا ہی پادریوں کے مقابل پر بھی مباحثات کی کتابیںشائع کرتا رہاہوں اور میں اس بات کا بھی اقراری ہوں کہ جبکہ بعض پادریوں اور عیسائی مشنریوں کی تحریر نہایت سخت ہو گئی ہے اورحد اعتدال سے بڑھ گئی ہے اوران مولفین نے ہمارے نبی ﷺ کی نسبت نعوذ باﷲ ایسے الفاظ استعمال کئے کہ یہ شخص ڈاکو تھا،چور تھا،زناکار تھا اورصدہا پرچوں میں یہ شائع کیا… تو مجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادہ مسلمانوں کے دلوں پر جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے،ان کلمات کا کوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو۔تب میں نے ان جوشوںکو ٹھنڈا کرنے کے لئے اپنی صحیح اورپاک نیت سے یہی مناسب سمجھا کہ اس عام جوش کے دبانے کے لئے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا کسی قدر سختی سے جواب دیا جائے۔ تو سریع الغضب انسانوں کے جوش فرو ہو جائیں اورملک میں کوئی بے امنی پیدا نہ ہو۔ تب میں نے بمقابل ایسی کتابوں کے جن میں کمال سختی سے بدزبانی کی گئی تھی۔چند ایسی کتابیں لکھیں جن میں کسی قدر بالمقابل سختی تھی۔ کیونکہ میرے کانشنس نے مجھے قطعی طور پر فتویٰ دے دیا کہ اسلام میں جو بہت سے وحشیانہ جوش والے آدمی موجود ہیں۔ ان کے غیظ وغضب کی آگ بجھانے کے لئے یہ طریق کافی ہوگا۔ کیونکہ عوض معاوضہ کے بعد باقی نہیں رہتا۔ سو یہ میری پیش بینی کی تدبیرصحیح نکلی اور ان کی کتابوں کا یہ اثر ہوا کہ ہزارہا مسلمان جو پادری عمادالدین وغیرہ لوگوں کی تیز اور گندی تحریروں سے اشتعال میں آچکے تھے۔ یک دفعہ ان کے اشتعال فرو ہوگئے…سو مجھ سے پادریوں کے مقابل پر جو کچھ وقوع میں آیا یہی ہے کہ حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوں کو خوش کیاگیا اور میں دعویٰ کرتا ہوں کہ تمام مسلمانوں میں سے اول درجہ کاخیر خواہ گورنمنٹ انگریزی کا ہوں۔کیونکہ مجھے تین باتوں نے خیرخواہی میں اول درجہ بنادیاہے۔(۱) اول والد مرحوم کے اثر نے۔ (۲) دوم اس گورنمنٹ عالیہ کے احسانوں نے۔(۳) سوم خداتعالیٰ کے الہام نے۔‘‘
(تریاق القلوب ص ب، ج، خزائن ج۱۵ص۴۸۹تا۴۹۱)
اس کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیںرہتی۔ اس بحث کو ہم یہیں ختم کرتے ہیں۔ تف ہے مرزا قادیانی کی نبوت پر اور ان کے ماننے والوں کے عقلوں پر!الابعد اللقوم الظٰلمین