ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
بڑے علماء نہ کھڑے ہوجاتے ۔ علماء کے رد نے ان کو اور بھی وقعت دیدی لوگ خواہ مخواہ ان کے دعووں کو اہم سمجھنے لگے ۔ کہ بڑے بڑے لوگ ان کے رد کی طرف متوجہ ہیں تو ضرور اہم ہوں گے ۔ علماء کے متوجہ ہونے نے ان کو اور بھی رونق دیدی ورنہ بہت جلد ختم ہوجاتے ۔ اسی طرح آریوں کو جو قوت ہوئی اکثر کی رائے ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ علماء ان کے جوابات دینے کی طرف متوجہ ہوئے ان کے مقابلہ کیلئے تو عوام ہی مناسب تھے کیونکہ عالم کو تو یہ بھی لحاظ رہتا ہے کہ کوئی ایسی ویسی کچی بات منہ سے نہ نکلے ۔ ایک مولوی صاحب سے کسی نے کہا کہ داڑھی رکھنے کا حکم قرآن مجید میں دکھلا دو انہوں نے یہ آیت پڑھی لاتاخذ بلحیتی اور کہا کہ دیکھو اگر ہارون علیہ السلام کے داڑھی نہ ہوتی تو موسی علیہ السلام پکڑتے کہاں سے اس ثابت ہوا کہ ان کے داڑھی تھی ۔ میں نے ان مولوی صاحب سے کہا کہ مولانا اگر وہ یہ کہتا کہ اس سے داڑھی کا صرف وجود ثابت ہوا وجود کان کون انکار کرتا ہے وجوب تو ثابت نہ ہوا وجوب ثابت کرو تو آپ کے پاس کیا جواب تھا ۔ مولوی صاحب بولے اجی اس میں اتنی سمجھ کہاں تھی وہ یہ سوال کرتا ۔ پھر ہمارے حضرت نے فرمایا کہ ہمیں تو خدا جانے کچی بات کہتے شرم آتی ہے ایسا شخص جو کچی بات کہنے سے شرمائے جاہلوں سے یا ہٹ دھرموں سے مقابلہ کب کرسکتا ہے ۔ ایسوں کے مقابلہ کے لئے ایسا ہی شخص چاہیے ۔ ایک گنوار نے کسی عیسائی سے پوچھا کہ عیسی خدا کا بیٹا ہے اس نے کہا ہاں اس نے پوچھا اور بھی کوئی بیٹا ہے کہا نہیں اس نے کہا تیرے خدا سے تو ( نعوذ باللہ ) میں اہی اچھا ہوں دیکھ میری تھوڑی سی عمر میں بیس لڑکے ہوچکے ہیں ۔ معلوم ہوا کہ تیرا خدا کچھ بھی نہیں بہت ہی کمزور ہے سب لوگ کہنے لگے واہ بھائی خوب کہی پادری کو ہرادیا ۔ ایسے جاہلوں کی قدر نہیں کرتے اور جو بہت بک بک کرتا ہو اس کو کہتے ہیں کہ بڑا اچھا وکیل ہے خوب لڑتا ہے ۔ مجھ سے جب کسی نے مناظرہ کیلئے کہا میں نے کہا کہ ایک بڑی بات ہے کہ حکم کون ہوگا ۔ یا علماء یا عوام علماء اگر حکم ہوئے تو وہ ادھر کے ہوں گے یا ادھر کے ان کا فیصلہ ہی کیا ہوگا ۔ عوام بے شک خالی الذہن ہوتے ہیں لیکن وہ ہیں جہلا تو جس فیصلہ کا مدار جہلا پر ہو وہ فیصلہ جیسا ہوگا ظاہر ہے بس اس سے تو یہی بہترہے کہ جو تمہارے نزدیک حق ہو تم کہو اور جو ہمارے نزدیک حق