ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
بعضا موقعہ لحاظ کا ہوتا ہے اب ان سے کیسے منہ پھوڑ کر کہہ دیا جائے کہ آپ کو بدن دبانا آتا نہیں آپ چھوڑ دیجئے ۔ مجبورا چپ رہنا پڑتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ہم خدمت کررہے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ میں ان کی خدمت کر رہاہوں کہ کچھ بولتا نہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم تکلیف اٹھارہے ہیں اس کے واسطے اور میں سمجھتا ہوں کہ میں ان کے واسطے اور میں سمجھتا ہوں کہ میں ان کے واسطے تکلیف اٹھا رہا ہوں طالب علموں سے دل کھلا ہوا ہے اور ان کو طریقہ بھی آتا ہے ان سے کچھ تکلیف بھی نہیں ہے چاہے پاؤں پھیلا دیا چاہے پیٹھ کرکے سورہا اب دوچار تو ایسے ہوتے ہیں سب ایسے کہاں ہوسکتے ہیں۔ ایک صاحب کو میں نے پنکھا جھلنے سے منع کیا انہوں نے کہا کہ ہم تو خدمت ہی کیلئے آئے تھے میں نے کہا کہ معاہدہ کیلئے تو دونوں طرف سے رضا ہونی چاہیے تھی اگر آپ اس غرض سے آئے ہیں تو لوٹ جایئے میں خدمت کی اجازت نہیں دیتا ( احقر بھی اس گفتگو کے وقت موجود تھا یہ بھی فرمایا تھا کہ یہ آپ بلکل غلط کہتے ہیں کہ خدمت کیلئے آیا تھا جس وقت آپ نے اس سفر کا قصد کیا تھا یہی خیال تھا کہ وہاں جاکر پنکھا جھلا کرونگا ) پھر فرمایا کہ یہ بہت آسان ہے کہ میں کسی سے خدمت نہ لوں ۔ اور کام سب کا کروں لیکن لوگ رسوم کۓ خوگر ہوگئے ہیں ۔ ایک صاحب دہلی کے آئے وہ ایک واعظ کے پاس رہتے تھے رات دن خدمت کرنے کی خوگر تھے بعد کو ان کا میلان بدعات کی طرف دیکھ کر یہاں آئے ان کو عادت تو اسی کی پڑی ہوئی تھی مجھ سے بھی بھوت کی طرح لپٹنا چاہا ۔ میں نے انہیں نرمی سے سمجھایا انہوں نے ایک پرچہ لکھ دیا کہ مجھے رنج ہوا ۔ آپ نے مجھ کو سعادت سے محروم رکھا ۔ میں بلا کر کہا کہ اگر آپ مجھ سے اعتقاد نہیں ہے تو میری خدمت میں کوئی سعادت نہیں جس کی محرومی کا رنج کیا جائے گا اگر اعتقاد ہے تو عجیب بات ہے کہ آپ مجھے سعادت سے محروم کرنے والا سمجھتے ہیں اگر ایسا ہے تو پھر ایسے شخص سے اعتقاد ہی کیوں رکھتے ہو اعتقاد تو اس سے رکھنا چاہیے جو سعادت سے قریب کرنے والا ہوں میں تو آپ کو سعادت سے بعید کرنے والا ہوں جو شخص سعادت سے محروم کرنے والا ہو وہ دشمن دین ہے آپ مجھے سعادت محروم کرنیوالا سمجھتے ہیں تو میں آپ کا دشمن دین ہوں اگر آپ مجھے ایسا سمجھتے ہیں تو پھر آپ کا یہاں رہنا فضول ہے تشریف لے جائیے ۔ ان کی آنکھیں کھلیں ۔ پھر میں نے کہا کہ تمہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جو کچھ مجھ کو کہا