ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
سمجھ میں نہیں آتی ۔ اور ان کے مقابلین کا مطلب یہ ہے کہ احکام کی مصالح عقلیہ ہماری سمجھ میں آتی ہیں اس خواب میں جو فیصلہ بتایا گیا ہے وہ ان دونوں اقوال کی تصویب کرتا ہے کہ یہ بھی کہنا صحیح ہے کہ احکام کی مصالح عقلیہ سمجھ میں نہیں آتیں مگر سب ایسے نہیں بلکہ ایسے صرف احکام جزئیہ ہیں اور یہ بھی صحیح ہے کہ احکام کی مصالح عقلیہ سمجھ میں آتی ہیں مگر سب کی شان نہیں بلکہ احکام کلیہ کی مصالح سمجھ میں آسکتی ہیں اوروہ بہت واضع ٌہوتے ہیں جو فیصلہ مجھکو معلوم کرایا گیا ہے اس سے ان دونوں قولوں میں تطبیق ہوجاتی ہے ۔ اور اس خواب میں خیال کا بھی احتمال نہیں میرا ذہن اس سے بلکل خالی تھا اور اس مبحث پر میں نے جو رسالہ لکھا ہے ۔ المصالح العقلی لللا احکام التقلیہ اس کو لکھے ہوئے بھی بہت دن ہوگئے غرض یہ مسئلہ آج کل میرے ذہن میں بلکل بھی نہ تھا ۔ یہ محض حق تعالٰی کا فضل تھا کہ خواب میں اس کی تحقیق فرمادی گئی اس فیصلہ کی تقریر یہ ہے کہ احکام دو قسم کے ہیں ایک تو کلیات اورایک جزئیات ۔ جو احکام کلی ہیں ان کے مصالح تو عقل سے معلوم ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ کھلے کھلے ہوتے ہیں مثلا یہ حکم ہے کہ ہمیشہ بولو جھوٹ کبھی نہ بولو ۔ اس کی مصلحتیں ہر شخص سمجھ سکتا ہے ۔ کیونکہ وہ عقل کے بالکل قریب ہیں ۔ لیکن جو احکام جزئی ہیں ان کے مصالح عقل اور قیاس سے نہیں معلوم ہوسکتے ۔ مثلا ظہر کی چار رکعتیں کیوں ہیں ۔ یا مثلا پہلے رکوع کیوں ہے پھر سجدہ کیوں ہے ۔ سو ایسے احکام میں رائے اورقیاس کو ذرا دخل نہیں محض عقل ان کے مصالح کے ادراک کیلئے ہر گز کافی نہیں بلکہ اس کے لئے قوت قدسیہ کی ضرورت ہے ۔ البتہ احکام کلی کے مصالح چونکہ بہت واضح ہوتے ہیں اور عقل سےمعلوم ہوسکتے ہیں اس لئے ان کے ادراک میں رائے اور قیاس کو دخل ہے ۔ اس کی دومثالیں بھی عجیب خواب ہی میں بتلائی گئیں ۔ احکام کلی کی مثال یہ دی گئی کہ اگر کوئی یہ کہے کہ ہرروز صبح ایک دو میل ٹہل آیا کرو۔ چونکہ یہ حکم کلی ہے اور اس میں کوئی قید یا تعین مشرق یا مغرب وغیرہ کی نہیں ہے ۔ اس لئے عقل سے اسکی مصلحت معلوم کرلینا بہت آسان ہے یعنی ہر شخص سمجھ سکتا ہے ۔ کہ اس سے مقصود تفریح ہے سوخواہ مشرق کی طرف جائے یا مغرب کی طرف مقصود بہر حال تفریح ہے ۔ لہذا اپنی رائے سے سمت وغیرہ کی تعیین کرنے کی بھی اجازت ہے برخلاف اس کے اگر کوئی بالتعیین یہ کہہ دے کہ فلاں شخص کو کپڑا پہنائے اور یوں سمجھے کہ مقصود تو نفع پہنچانا ہے ۔ وہ ہر صورت میں حاصل ہے یویہ محض رائے سے ہر گز جائز نہیں