ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
اس خیال سے بڑھاپے میں پڑھتے تھے کہ اخیر وقت عبادت گذر جائے ان کے ساتھ ایک طالب علم بھی جو حضرت سے بیعت ہیں شریک درس ہونے لگے وہ اگر کوئی بے جاں سوال کرتے یا کبھی کوئی کوتاہی کرتے تو حضرت کو بہت ناگوار ہوتا ایسے سوالات پر فرماتے کہ یہ مدرسہ نہیں ہے جو چاہا جابے جا پوچھ لیا۔ یہاں طریقہ کے ساتھ پڑھنا ہوگا برخلاف اس کے ان ضعیف العمر کی اس قدر گرفت نہ فرماتے تھے ۔ فرمایا کہ مولوی صاحب ضعیف العمر صاحب کو مقصود دین ہے مولوی صاحب سے اور برتاؤہے ۔ ان طالب علم سے حقوق طالب علمانہ کا مطالبہ کرونگا ۔ طبیعت ہرچیز کا ایک مرکز تجویز کرلیتی ہے اور پھر اسی مرکز ڈھونڈتی ہے مقصود کے مناسبات پر نظر رھتی ہے میرے حدت طبعی نہیں ہے ۔ بلکہ تابع ہے اسی خیال کے طبعی ہوتی ہے تو اچھا ہرجگہ کیوں نہ مغلوب ہوجاتا ۔ طبیعت ہرشے کا ایک ضابطہ ڈھونڈتی ہے یہ مرض ہے ۔ گپڑ سپڑ نہیں کے جو چاہا سو ہوگیا ۔ بلاآخر حضرت نے ان طالب علم صاحب کو فرمایا کہ تم شریک مت ہوا کرو تمیں نقصان ہوگا کیونکہ جب حقوق طالب علمانہ ادا نہیں کرتے تو طبیعت منقبض ہوتی ہے اور مرید کو شیخ کے قلب کا انقباض مانع ہوجاتا ہے اس لئے مرید کو اپنے شیخ سے طالب علمی کی حثییت سے پڑھنا نہیں چاہئے ۔ ہاں یہ اجازت ہے کہ بلا کتاب یہاں بیٹھ جایا کرو اور سنا کرو۔ سوالات کی یا کتاب لے کر بیٹھنے کی اجازت نہیں اور اگر اپنے طور پر کتاب کا مطالعہ کرکے پھر میری تقریر سنا کرو گے تو انشاءاللہ سب سمجھ میں آجایا کریگا اور محض سننا بھی کافی ہوگا ۔ پھر فرمایا کہ دو تین روز سے جیسے یہ بیٹھنے لگے طبیعت الجھنے لگی تیزی آنے لگی مولوی صاحب کے بارہ میں اول سے سمجھ لیا ہے کہ درس تدریس مقصقود نہیں اس لئے تغیروہی نہیں ہوتا تھا ۔ خیال عجیب چیز ہے میں نے سوچا کہ یہ بڑی علت لگی اس طرح کہاں تک چلا سکوں گا اس لئے میں نے کہا کہ یہ جھگڑا ہے جس چیز سے بوجہ ہو حذف ان طالب علم صاحب سے یہ بھی فرمایا کہ مقصود جو آپ کا ہے اس کے ساتھ یہ چیزیں میل نہیں کھاتیں ۔ ایسا ہے جیسے ٹاٹ کپٹرے کا پیوند لگا دیں اب چاہیں آپ کپڑا ہو چاہے یہ کپڑا ہوں ۔ یہ ضعیف العمر صاحب صحبت یافتہ امراء کے تھے اس لئے دوران درس میں بھی حضرت کی لمبی چوڑی تعریفیں بات بات پرکیا کرتے تھے جو حضرت کو ناگوار ہوتا تھا ۔ ایک بار ایساہی موقعہ پر فرمایا کہ ان باتوں کی اس وقت ضرورت نہیں اس کیلئے جلسہ مدحیہ