ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
قبور ہر طرح مضر ہے ۔ ان امور میں خیال کی بھی بہت آمیزش ہوتی ہے ۔ تلبیس ابلیس کا بھی اس میں احتمال رہتا ہے ۔ ایسا ایک غضب کا واقعہ بھائی بیان کرتے تھے کہ جب وہ بریلی میں تھے ان کے مکان کے نیچے ایک محلہ تھا ۔ مسیت گنج جس میں بنیئے رہتے تھے ۔ ایک بنیامرنے لگا اس نے مرنے کے وقت اپنے سب عزیزوں کو بلایا اور نہایت اطمینان کے ساتھ اس نے باتیں کیں ۔ اس نے بھائی سے ملنے کی بھی خواہش کی کہ منشی جی کے دیکھنے کو جی چاہتا ہے ۔ بھائی بہت رقیق القلب ہیں وہ اس کے دیکھنے کو گئے پوچھا کیا حال ہے لالہ جی ! اس نے کہا اجی بڑا آرام ہے بڑا چین سے بھراپنے مکاشفات بیان کرنے لگا کہ بڑے بڑے محل ہیں باغ ہیں طرح طرح کے شگوفے ہیں نہایت آرام ہے ۔ اس طرح سارا نقشہ جنت کا بیان کررہا تھا جیسے جنت اس کے پیش نظر ہو ۔ بھائی نہایت حیران کہ یہ کیا معاملہ ہے جانکنی کا وقت تھا لیکن نہ اس پرہر اس تھا نہ اس پر خوف نہایت ہشاش بشاش اسی حالت میں اس کا انتقال ہوگیا ۔ بھائی نے مجھ سے کہا میں نے کہ اس امر پر تونصوص قطعیہ موجود ہیں کہ کافر جنتی نہیں ہوسکتا لہذا اس واقعہ کی تاویل کرنا واجب ہے دو تاویلیں ہیں لیکن ان میں سے ایک زیادہ جی کو لگتی ہے ایک تاویل تو یہ ہے کہ ممکن ہے کہ اس کے قلب میں پہلے اسے اسلام ہو لیکن اس نے ظاہر نہ کیا ہو یہ تو طالب علمانہ تاویل ہے اور جو دوسری زیادہ جی لو لگتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب مکاشفات شیطانی تھے ۔ شیطان نے اس کے خیال میں تصرف کرکے جنت خیالی نقشہ اس کے پیش نظر کردیا تھا ۔ اوروں کی تلبیس کے لئے تاکہ لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ جنت کے حصول کے لئے اسلام شرط نہیں ہے جو مسلمان نہ ہو وہ بھی جنت میں جاسکتا ہے کس قدر زبردست تلبیس ہے اللہ بچائے ۔ حضرت ایسے ایسے نازک ہیں تو یہ مکاشفہ کیا چیز ہے جو حجت ہوسکے ۔ البتہ مرتے وقت اگر مومن کی حالت اچھی ہو توایک امید کے درجہ میں اس کے حسن خاتمہ کی علامت وبشارت ہوسکتی ہے ۔ مگر احتجاج کے درجہ میں نہیں ہوگا کسی حالت سے سوء خاتمہ پر استدلال جائز ہی نہیں ۔ حضرت میاں جی نور محمد قدس سرہ العزیز کے ایک پیر بھائی تھے ۔ شیر محمد خاں صاحب بعد وفات اپنے شیخ کے خان صاحب نے حضرت میاں جی سے رجوع کیا تھا ۔ اس طرح خاں صاحب پیر بھائی تھے ۔ اور مرید بھی تھے مرتے وقت لوگ ان سے کلمہ پڑھنے کو کہتے تھے تو وہ منہ