ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
جو تعظیم وتکریم کرے ۔ حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب کے دربار میں ایک وزیر اعظم کی حاضری اور اس کا ادب ۔ لیفٹینٹ گورنر کی حاضری اور اس کو تبرک ملنا ۔ بڑے لوگ بزرگوں کی ڈانٹ تحمل کر لیتے ہیں ۔ اور چھوٹے نہیں کرتے ۔ نرے ہاتھ میں ہاتھ دینے سے کچھ نفع نہیں ہوتا ۔ اللہ کے لئے اتنی تو ذلت اٹھائی جائے جتنی کہ دنیا کیلئے اٹھائی جاتی ہے : ایک صاحب نے بہت سے سوالات ایک خط میں لکھ کر بھیجے ۔ یہاں سے یہ جواب گیا کہ ایک خط میں دو تین سوالوں سے زیادہ نہیں ہونے چاہیں کیونکہ اتنی فرصت نہیں اس پر ان صاحب کا بہت خفگی کا اور طعن کا خط آیا کہ کیا یہی اخلاق محمدی ﷺ ہیں ۔ فرمایا کہ عدالت میں اگر دو آسامیوں کی درخواست ایک کاغذ میں لکھ کر پیش کی جائے اور وہاں سے حکم ہو کہ نہیں علیحدہ علیحدہ درخواست دو اور علیحدہ علیحدہ ٹکٹ لگاؤ ۔ تو وہاں کوئی کچھ نہیں کہتا ۔ فورا دو درخواستیں لکھوا کر اور دوٹکٹ لگا کر لے آتے ہیں ۔ اور یہاں تو اعتراض کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ بات یہ ہے کہ دین کی وقعت قلب میں نہیں اور طلب نہیں ۔ وہاں وقعت بھی ہے اور طلب بھی ہے ۔ حالانکہ وہاں تو دو درخواستیں لکھوائی جاتی ہیں خود عدالت کی ایک منفعت بھی ہے تاکہ دو ٹکٹوں کے دام وصول ہوں ۔ اور یہاں تو محض مصلحت دینیہ ہوتا ورنہ پچاس پچاس سوالات کے دو خط ہوئے تو انہیں کا ختم کرنا مشکل ہے ۔ بقیہ ڈاک یوں ہی بلا جواب پڑی رہے ۔اور نہ معلوم کب تک جوابوں کی نوبت نہ آیا کرے ۔ بعضوں نے یہ بھی رائے دی کہ جس خط میں بہت سے سوالات ہوں اس کو رکھ لیا جایا کرے اور دو دو تین تین سوالات کے جوابات روز لکھ کر جب سب سوالات ختم ہو جایا کریں تب بھیج دیا جایا کر ے اس میں ظاہری کہ کس قدر طوالت اور پریشانی ہے۔ دوسرے کو بھی انتظار جواب کی سخت تکلیف ہو کیونکہ نہ معلوم سب کے جوابات کب تک ختم ہوں۔