ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
خفی اس میں یہ ہے کہ خود حاکم کے قلب پر اثر ہوا تو اسی سے ہوا کہ اس نے بار بار درخواستیں اور عرضیاں گذرائیں ـ بس درخواستیں تو سب نا منظور کر دی گئیں کیونکہ وہ درخواستیں دے دیکر استحقاق کا دعوی کر رہا تھا ـ اس کو مطلع کر دیا گیا کہ تمہیں کوئی استحقاق نہیں کیونکہ تم انٹرینس نہیں ایف اے نہیں ـ بی اے نہیں ـ بعد کو جو از خود تحصیلداری دے دی تو اس کا راز یہ تھا کہ تمہیں استحقاق تو نہیں تھا لیکن پھر ہم نے اپنی عنایت سے دیدیا ـ اس طرح دونوں باتیں ٹھیک ہو گئیں یہی پیر زادے صاحب جو اس ملفوظ کے مخاطب ہیں اسی روز حسب معمول پرچہ دیکر بعد مغرب غالبا کچھ ذکر شغل کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے خلوت میں حاضر ہوئے ـ حضرت نے اجمالا ان اصلاحوں کا حوالہ دیکر جو بیعت کے متعلق حضرت ارشاد فرما چکے تھے ـ ( جیسا کہ بتفصیل اس ملفوظ میں گذر چکا ہے ) فرمایا کہ ایک میں نے اس رسم کو بھی مٹایا ہے کہ جس وقت کوئی بیعت ہو اس وقت اس سے کچھ نہیں لینا چاہیے ـ نہ قلیل نہ کثیر نہ امیر سے نہ غریب سے اس کا نفع یہ ہے کہ بعض دفعہ غریب طالب صادق یہ رنگ دیکھ کر بد دل ہو جاتے ہیں کہ میں مرید کیسے ہوں ـ یہاں تو دینا ہو گا ـ یہ ضرر ہے ـ بیعت کے وقت نذرانہ لینے کا ـ اور پیر صاحب کا بھی ضرر ہے کہ بعد بیعت کرنے کے طبیعت نگراں رہتی ہے کہ اب نذر دیں گے ـ اس قسم کی خرابیاں ہیں اس رسم میں ـ پیر لوگ کم از کم اتنا ہی کر لیں کہ بیعت کے وقت کچھ نہ لیا کریں ـ عرض کیا گیا کہ بیعت کے وقت چاہے کچھ نہ ملے لیکن بعد کو تو توقع رہے گی کہ ملتا رہے گا ـ فرمایا کہ جی ہاں بعضے ایسے بھی ہوں گے کہ ان کی اتنی دور نظر پہنچے گی لیکن بعضے مرید تو بیعت کے بعد پھر کبھی ملتے بھی نہیں ـ بلکہ زیادہ ایسے ہی ہیں ـ اس لئے آئندہ کی نذر ذرا بہت ہی کم متوقع ہے پھر فرمایا کہ ایک میں نے یہ بھی اصلاح کی ہے کہ ہر حاضری میں ہدیہ کی پابندی نہ کی جائے ـ بعضے جب بھی آتے ہیں ضرور لاتے ہیں ـ گویا اس طرح تو لوگ آ نے سے رکیں گے ـ کیونکہ جب کچھ پاس پلہ ہو تب کہیں پیر صاحب سے ملنے جائیں ـ ایک مقدار کے متعلق بے احتیاطی تھی ـ چاہے کوئی سارا گھر بھی لائے تب بھی پیر صاحب خوشی سے رکھ لیں ـ پھر فرمایا کہ اس زمانہ میں بڑی ضرورت تھی ان تجدیدات کی ـ ایسے رسوم غالب ہو گئے