ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
اختیار نہیں ہے کہ ایک شخص کو بلا کسی استحقاق کے نیکیاں دیدے کیا اس کے یہاں نیکیوں کی کمی ہے یہی خیال کیوں نہ رکھے ۔ نانوتہ میں ایک صاحب نے یہی کہا تھا کہ ہم تو اسی لئے اپنے حقوق معاف نہیں کرتے کہ ان کے عوض میں ہم کو دوسرے کی نیکیاں ملیں گی اور دوسروں کے جو حقوق ہم نے ضائع کئے ہیں ان میں وہ نیکیاں مجرا ہوکر حساب ٹھیک ہوجائے گا ۔ لاحول ولا قوۃ ۔ اللہ میاں سے حساب کتاب قانونی کرنا بڑی سخت گستاخی اور جہالت ہے بلکہ میں کہوں گا کہ خباثت ہے کیا اللہ تعالٰی کو اتنی بھی قدرت نہیں کہ ایک شخص کو بلا کسی استحقاق کے نیکیاں دے دے ۔میں تو اس لئے سب کے حقوق معاف کردیتا ہوں کہ اگر یہ فعل مقبول ہوگیا تو حق تعالٰی سے امید ہے کہ وہ اوروں سے ان حقوق کو جو میرے ذمہ ہیں خود ہی معاف کرالیں گے ۔ پھر انہیں طبیب صاحب کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ ایک بات میں آپ سے خیر خواہانہ کہتا ہوں کہ یہ آپ نے بزرگوں سے معافی چاہنے کا رادہ کیا ہے یہ بہت اچھی بات ہے لیکن فقط یہ تدبیر کافی نہیں بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ یہ مرض کہاں سے پیدا ہوا ہے ۔ اس مرض کا منشا کیا ہے اس منشا اور مبنی کا انسداد کرنا چاہیے ۔ کیونکہ ایک توعرض ہوتا ہے اور ایک مرض ۔ گو بعضا عرض بھی ایسا ہوتا ہے کہ اس کا فوری دفعیہ قابل اہتمام ہوتا ہے لیکن اصل توجہ تو مرض کے ازالہ کی طرف ہونی چاہیے ۔ جو منشا موجود ہے ۔ وہ پھر عود کریگا ۔ اگر آپ نے اس وقت بزرگوں سے اپنا کہہ سنا معاف بھی کرالیا تو کیا ہوتا ہ اگر اس کا منشاء موجود رہا تو پھر آپ سے یہی فعل صادر ہوگا ۔ لہذا اس کے منشاء اور مبنی کو تلاش کرکے اس انسداد کرنا چاہیے ۔ خواب کا تو خیر کیا اعتبار ہے کہ کوئی چیز قابل اعتبار نہیں ۔ اصل معیار تو شریعت ہے ۔ اگر آپ خوابوں کے بھروسہ رہے تو جس جگہ گناہ کی بابت آپ خواب میں دیکھیں گے ۔ اسی سے توبہ کریں گے ۔ اور اگر نیک کام کے اوپر خواب میں لتاڑ پڑگئی ۔ تو اس کو چھوڑ دیں گے ۔ بڑی چیز تو یہ ہے کہ شریعت پر منطبق کر لیجئے کہ کون سا فعل میرا شریعت کے موافق ہے اور کو نسا خلاف ۔ اور کسی کے ساتھ اعتقاد رکھنا تو ضروری نہیں ہاں بدگمانی اور بد زبانی بلا ضرورت کسی کے ساتھ جائز ۔ نہیں ۔ اس واسطے کسی پر بدگمانی نہ کرے ۔