ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
تولائے مرداں ایں پاک بو م برا نگیختم خاطر از شام وروم پھر فرمایا کہ کیرانہ میں پانچ گھنٹہ وعظ ہوا الفاط قرآن اس وعظ کا نام رکھا ہے ۔ اس میں یہ ثابت کیا کہ نقوش بھی مقصود ہیں الفاظ قرآن بھی مقصود ہیں قطع نظر معنی کے ۔ بلکہ الفاظ سے گزر کر میں نے یہ ثابت کیا کہ نقوش بھی مقصود ہیں الفاظ اور نقوش دونوں کے مقصود ہونے کو ایک ہی آیت سے ثابت کیا تھا الکتاب وقران مبین ۔ میں نے کہا کہ کتاب کے معنی ہیں لکھی ہوئی چیز اور قرآن کے معنی ہیں پڑھنے کی چیز۔ کتاب کے لفظ سے نقوش کا مقصود ہونا اور قرآن کے لفظ سے الفاظ کا مقصود ہونا ثابت کیا تھا اس کے سمجھانے میں کسی قدر دیر لگی تھی کہ جوچیز لکھی ہوئی ہوتی ہے وہ الفاظ ہی نہیں ہوتے بلکہ نقوش ہوتے ہیں ۔ اہل علم تو اس کو خوب سمجھتے ہیں لیکن عوام سمجھتے ہیں کہ الفاظ ہی لکھے جاتے ہیں اس لئے اس کی تقریر کرنے میں کچھ دیر لگی تھی ۔ وعظ بہت مجمع تھا اور نہایت استیاق کے ساتھ پانچ گھنٹے تک بیٹھے ہوئے وعظ سنتے رہے ۔ الفاظ قرآن کے مقصود ہونے کا بیان اس لئے کیا تھا کہ آج کل جدید تعلیم یافتہ لوگ الفاظ کو مقصود نہیں سمجھتے ۔ محض معنی کو مقصود سمجھتے ہیں ۔ بعد وعظ کے لوگ پوچھتے تھے کہ شام کو کہاں ہوگا کیا مجھے بالکل لوہے کا سمجھ لیا ۔ لیکن اس سے ان کا اشتیاق ضرور ظاہر ہوتا ہے یہ بات قدر کرنے کے قابل ہے ۔ پھر فرمایا کہ ایک مرتبہ میں نے وعظ کیا تھا جس میں بدعات ہی کا ذکر تھا ۔ گواراہ نہیں تھا لیکن میں کیا کرتا کچھ خود بخود یہی مضمون چل پڑا ۔ نہایت اچھا بیان تھا لیکن افسوس کوئی قلم بند کرنے والا نہیں تھا ۔ اگر وہ قلم بند ہوجاتا تو بہت نافع ہوتا ۔ تما پیر جی صاحبان بھی شریک تھے ۔ سب بیٹھے سنتے رہے ۔ اخیر میں انہوں نے کہا کہ بیان تو ایسا تھا کہ بے نظیر لیکن ہماری تو ریڑھ ہی مار دی جڑہی کاٹ دی ۔ لیکن پھر بھی خوش تھے ۔ حالانکہ میں نے بہت کھری کھری سنائیں کیونکہ میرے یہاں کوئی لاگ لپیٹ تو ہے ہی نہیں نہ تقیہ نہ تو یہ صاف صاف کہتا ہوں ۔ اور اب بھی میں نے قبروں کے پختہ بنانے کی مذمت انہیں کے مذاق بیان کی ۔ میں نے کہا یہ جو تم بزرگوں کے بڑے بڑے پختہ مزارات بناتے ہو تو یہ دیکھو کہ ان کے ساتھ زندگی میں کیا برتاؤ کرتے تھے ۔ جسد ظاہری کے متعلق ان کی بزرگی میں ایک لباس تھا اسی کو دیکھ لو کہ آیا کس قسم کا ان کی خدمت میں پیش کرتے