ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
کر فرمایا کر مجھے چاہے گالیاں دے لین جبکہ جن کی جوتیاں سیدھی کرکے کچھ پڑھایا ہے ان کی بابت تو سنانہیں جاتا ۔ رامپور جانے کی اور بھی غرض تھی کہ ایک بوڑھے شخص نے کہلا کر بھیجا تھا کہ مجھ سے تو آیا نہیں جاتا ۔ سب تمہاری زیارت کو آتے ہیں تم مجھے اپنی زیارت کرا جاؤ ۔ غرض جب مولانا پہنچے تو مولوی صاحب خود تو سامنے نہیں آئے لیکن اپنے آدمیوں کو بھیجنا شروع کیا ۔ مولانا تھے بڑے دلیر ۔ گو تواضع کی شان بھی نہایت بڑھی ہوئی تھی ۔ مگر موقعہ پر بالکل بیباک ہوجاتے تھے ۔ فرمایا کہ اپنے استاد کو لاؤ ۔ چوڑیاں کیوں پہن لیں ۔ پردہ سے باہر کیوں نہیں نکلتے ۔ مگر وہ خود نہیں آئے ۔ مولانا نے وعظ میں بھی کہا کہ خود پردہ میں بیٹھ کر اوروں کو بھیجتے ہیں یہ کیا زنانہ پن ہے ہمت ہے تو سامنے آئیں ۔ لیکن اس پر بھی ان کی ہمت نہیں ہوئی ۔ مولانا کی ذکاوت سے سب ڈرتے تھے ۔ مولوی اسحاق صاحب کے ایک استاد عامل بالحدیث کہتے تھے ۔ کہ میں مولانا کی مجلس میں پہچا مولانا قرات فاتحہ خلف الامام کو عقلی دلائل سے ثابت کر رہے تھے کہتے تھے کہ مجھے کئی جگہ خدشہ ہوا لیکن چپ ہوگیا ان سے گفتگو کرنا چھاڑ اپنے پیچھے لگا لینا ہے ان سے عہدہ پر آہونا مشکل ہے ۔ مولانا بے حد ذکی تھے ۔ ایک مولوی صاحب غیر مقلد بہت تیز ہیں میں بھی ان سے ملا ہوں ان کے چہرہ اور لہجہ سے معلوم ہوتا تھا کہ بے حد ذکی ہیں انہوں نے مولانا سے کہا کہ مجھے امام صاحب کے بعض اقوال میں چند شہبے ہیں ۔ مولانا نے فرمایا کہ متاخرین کی تفریعات کو تو میں کہتا نہیں لیکن خاص امام صاحب کے جتنے اقوال ہیں ان میں دعوٰی کرتا ہوں کہ ان میں ایک بھی ایسا نہیں ہے ۔ جو حدیث سے ثابت نہ ہو ۔ میں دعوٰی کرتا ہوں کہ خود امام صاحب کے جس مسئلے کو چاہے پوچھ لیجئے حدیث سے ثابت کردوں گا ۔ حالانکہ مولانا کی کتابوں پر کچھ زیادہ نظر نہ تھی ۔ ہے واقعی بہت بڑا دعویٰ ۔ فرمایا کہ میں کہتا ہوں کہ خاص امام صاحب کا ایک قول بھی حدیث کے خلاف نہیں ۔ وہ مولوی صاحب چند مسائل پوچھ کر چپ ہوگئے جانتے تھے کہ کیسے شخص ہین ۔ رام پور کے وعظ میں مولانا نے دعوٰٰی کیا تھا کہ لوگوں نے معقول معقول پکا رکھا ہے لیکن جانتے بھی نہیں کہ معقول کیا چیز ہے ۔ معقول کو بھی منقول کر رکھا ہے ۔ پھر اصل علم قرآن وحدیث ہے ۔ میں دعوٰی کرتا ہوں کہ جتنے مسائل فلسفہ ہیں نفیا یا اثبات سب قرآن میں موجود ہیں ۔ ایک صاحب نے اٹھ کر کہا کہ جزلایتجزی کے مسئلہ میں متکلمین اور حکماء کا اختلاف ہے