ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
تعریف کی ۔ لیکن کہا کہ پرانے فیشن کے ہیں ۔ پھر فرمایا کہ ہمیں تو فخر ہے کہ ہم پرانے فیشن کے ہیں ۔ استفسار پر فرمایا کہ اگر کوئی شخص تحقیق چاہے تو یہ پاس رہنے سے ہوسکتا ہے ۔ ایک جلسہ میں طے نہیں ہوسکتا ۔ جوہمارے پاس آکر رہے گا اس کو سمجھائیں گے ۔ اول تو اس کے بہت سے سوالوں کو بے ہودہ ثابت کریں گے ۔ پھر جب مختلف جلسوں میں اس کے مذاق اور فہم کا اندازہ ہوجائے گا ۔ اور اس کو بھی ایک گونہ مناسبت پیدا ہوجائے گی تب اس کے بقیہ سوالات کا جواب اس کی سمجھ اور مذاق کے موافق دے کر اس کو سمجھادیں گے اگر طالب نہیں تو فضول ہے اور اگر طلب ہے تو دو مہینہ رہنا آسان ۔ حضرت طلب کی تو صورت ہی اور ہوتی ہے ۔ آج کل تو متعرض لوگوں کو عناد ہے تحقیق تھوڑا ہی منظور ہے پھر ان صاحب سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ بھلا میں یہ پوچھتا ہوں کہ اگر آپ اس ہندو کے اعتراض کا جواب دیدیتے تو بس وہ مسلمان ہوجاتا ۔ انہوں نے کہا کہ نہیں بلکہ وہ تو مربھی گیا ۔ فرمایا کہ پھر تو آپ کا پوچھنا اور بھی فضول تھا ۔ بس عوام کے لئے سیدھا اور سچا جواب یہی ہے کہ ہم نہیں جانتے ہمارے علماء سے پوچھو۔ صحابہ کا تو یہ طرز تھا کہ بے تکلف کہہ دیا کرتے تھے کہ ہمیں نہیں معلوم ۔ ہم رسول سے پوچھ کر بتلائیں گے ۔ اصلی جو طریقہ ہے اسلام کا وہ یہی ہے لیکن افسوس حقائق مٹ گئے اور مٹے ہی نہیں بلکہ ظاہر جو کئے جاتے ہیں تو ان کی وقعت نہیں ہوتی ۔ رواج غالب ہوگئے ہیں ہرچیز پر ۔ ایک عیسائی کے کچھ اعتراضات ایک پرچہ میں چھپے جن کا جواب قرآن سے مانگا تھا میں نے جواب تحریر کرکے اس پرچہ کے دفتر میں پہنچ دیا کہ آپ کا یہ کہنا کہ قرآن سے جواب دو ۔ متضمن ہے ایک دعویٰٰ ہی غلط ہے ۔ مسلمان کب کہتے یہں کہ یہ سب مسائل قرآن ہی سے ثابت ہیں ان کے یہاں کسی مسئلہ کے ثبوت کے لئے چار دلائل موضوع ہیں ۔ قرآن ، حدیث ، اجماع اور قیاس ۔ لہذا انہیں حق ہے کہ ان میں سے کسی ایک دلیل سے ثابت کردیں ۔ ہاں خود ان دلائل کی صحت کا ثابت کرنا ہمارے ذمہ ہے ۔ سائل کو ہمارے دعوے کو محفوظ رکھ کر سوال کرنا چاہیے تھا ۔ لہذا یہ سوال ہی فضول ہے اور باوجود یلہ نہایت تحقیقی جواب تھا ۔ کیونکہ موٹی بات ہے کہ اگر مدعی اپنے دعوے کے اثبات میں دو گواہ پیش کرے تو مدعاعلیہ مجیب کو یہ تو حق ہے کہ ان گواہوں پر جرح قدح کرے ۔ لیکن تعیین گواہاں کا ہرگز حق نہیں کہ جب تک دعوے کو تسلیم نہ کروں گا ۔ جب