ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
تک فلاں فلاں گواہ آکر شہادت نہ دیں ۔ مثلا جج صاحب اور کلکڑ صاحب ۔ لیکن باوجود اس کے معقول ہونے کے اس جواب کی قدر نہیں کی گئی بلکہ اور لوگوں نے جو گھڑا گھڑا کر قرآن سے ثابت کرکے جواب دیئے وہ تو صاحب پرچہ نے چھاپے مگر میرا جواب نہیں چھایا گیا ۔ قانونی جواب ہمیشہ بے مزہ ہوتا ہے ۔ دیکھئے قانون کی دفعات روز مرہ کچہریوں میں پڑھی جاتی ہیں لیکن ان پر کسی کو وجد نہیں آتا ۔ اور اگر مومن کی غزل کا ایک شعر کوئی پڑھ دیتا ہے تو لوگ رقص کرنے لگتے ہیں مگر دل دیکھ لیجئے کہ اصل چیز کون سی ہے شاعری ہے یا قانون ۔ قانون وہ چیز ہے جس کی بدولت امن قائم ہے ۔ سلطنت کا نظام اسی پر مبنی ہے اگر امن نہ ہوتا تو شاعری صاحب کو وہ شعر بھی نہ سوجھتا جس پر وجد ہورہا ہے ۔ ایک مولوی صاحب سے ایک تو تعلم یافتہ نے داڑھی کا ثبوت قرآن سے طلب کیا انہوں نے کہا کہ دیکھو قرآن مجید میں ہے کہ جب موسی علیہ السلام کو حضرت ہارون علیہ السلام پر غصہ آیا تو انہوں نے ان کی داڑھی پکڑلی ۔ دیکھو قرآن سے نبی کے داڑھی ہونا ثابت ہے ۔ میرے سامنے ان مولوی صاحب نے یہ جواب نقل کیا ۔ میں نے کہا کہ مولانا اس سے تو آپ نے داڑھی کا وجود ثابت کردیا ۔ وجوب تو ثانت نہ ہوا ۔ اور گفتگو تھی وجوب میں ۔ ورنہ محض وجود ثابت کرنے کیلئے آپ نے قرآن کا ناحق تکلیف دی ۔ اپنی ہی داڑھی دکھلادی ہوتی کہ اے لو یہ داڑھی کا ثبوت ہے ۔ مشاہدہ کا انکار بھی نہ ہو سکتا ۔ اور اس جواب پر تو اگر وہ آپ سے یہی سوال کرتا جو میں نے کیا تو آپ کیا جواب دیتے ؟ مولوی صاحب کیا فرماتے ہیں کہ اجی اس میں اتنی عقل ہی کہاں تھی جو یہ سوال اسے سوجھتا ۔ پھر فرمایا کہ ہمارے تو منہ سے بھی کبھی ایسی لچربات نہ نکل سکتی ۔ یہاں تو وہ بات کہی جاتی جو اپنے نزدیک قیامت تک نہ ٹلے ۔ اور میں کہتاہوں کس کس بات کو قرآن سے ثابت کرو گے ۔ آخر کہیں تو عاجز ہوگے ۔ مغرب کی تین رکعتیں کون سی آیت سے ثابت کرو گے ۔ اخیر میں وہ ہی تحقیقی جواب دینا پڑے گا ۔ پھر اول ہی سے تحقیقی جواب کیوں نہیں دیدیتے پھر فرمایا کہ عوام کے لیے عمدہ طریقہ یہ ہے کہ صاف کہہ دیں کہ ہم بلا ضرورت مذہبی گفتگو کرنا چاہتے ۔ مذہبی گفتگو سے