ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
تو جہاں میں مقیم تھا وہاں بھی آسکتے تھے ۔ یہ کیا بدتمیزی کی بات ہے کہ گھر بلابلا کر نذرانہ ۔ گویا اسی واسطے آنا ہوا تھا ۔ یہ تو ذلیل کرنا ہے دوسرے کو ۔ حضرت ایسے طریقے بدل گئے ہیں ۔ رسوم غالب ہوگئیں ۔ کوئی پوچھتا نہیں کوئی ٹوکتا نہیں ۔ مولانا محمد قاسم صاحب ایک رئیس کی دینداری کے بہت مداح تھے لیکن کبھی ملے نہیں علی گڑھ میں تشریف رکھتے تھے وہ رئیس صاحب ملنے کے لئے آئے جب سناکہ وہ صاحب آرہے ہیں علی گڑھ چھوڑ کر چلے گئے ملے نہیں ۔ مولونا گنگوہی عمر بھی کسی امیر کے دروازے نہیں گئے ۔ عرض کیا گیا کہ وہ رئیس صاحب تو طالب دین ہوکر آرہے تھے پھر بھی حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نے اعراض فرمایا ۔ فرمایا کہ ہر بزرگ کی جدا شان ہوتی ہے طبائع مختلت ہوتے ہیں حضرت مولانا کی طبعیت ہی ایسی واقع ہوئی تھی کہ ان کو امراء سے انقباض ہوتا تھا ۔ تکبر تو برا ۔ امراء کو بھی حقیر کیون سمجھے لیکن اختلاط بھی کیوں کرے کہیں پھنس ہی جائے تو پھر بدخلقی نہ کرے ۔ یہی بنگالی مولوی صاحب جن کا ذکر اس ملفوظ میں ہے دیوبند تشریف لے گئے وہاں سے بعد حصول اجازت پھر حاضر خدمت ہوئے لیکن حضرت کے مواخذوں پر بجائے اعتراف واظہار امر واقعی کے اپنے اقوال کی تاویلیں کرتے رہے ۔ جس پر حضرت نے مکاری اور تکبر کے الزامات ان پر قائم کیئے اور بہت منقبض ہوئے حضرت نے یہ معلوم کرنا چاہا کہ اپنے سابق بدعتی پیر کو گمراہ کہنے میں اس قدر آپ کو کیون تامل ہوا تھا ۔ دیوبند سے جو خط بغرض اجازت بھیجا تھا اس میں بھی صاف الفاظ میں ان کو گمراہ نہ لکھا تھا ۔ حضرت نے تحریر فرما دیا کہ یہ الفاظ کا فی نہیں چنانچہ دوسرے خط میں انہوں نے صاف الفاظ لکھ کر بھیجئے تب اجازت حاضری کی ملی ۔ زبانی گفتگو میں اس پس و پیش کی وجہ وہ برابر اپنی کم فہمی ظاہر کرتے رہے لیکن چونکہ یہ اصلی وجہ نہ تھی ان کی کوئی تاویل حضرت کے سامنے نہ چل سکی بہت دیر کی قیل وقال کے بعد انہوں نے اقرار کیا کہ کھلے الفاظ میں گمراہ کہنا شاق گزرتا تھا ۔ غرض انہوں نے امور واقعہ کو چھپانے کی بہتیرا کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ اتقو فراستہ المومن فانہ ینظر بنور اللہ تعالیٰ ۔ اولیاء اللہ کو نور باطن سے ادراک ہوجاتا ہے کئی بار انہوں نے بعد مغرب پرچہ دیکر تعلیم حاصل کرنی چاہی لیکن انہں چھوٹی تاویلوں اور بے جا اخفا کی