ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
کیا کہوں ۔ مولانا جو کچھ کہئے گا سوچ سمجھ کر کہئےگا ۔ یہ نہیں کہ بچہ ہوں بہل جاؤں گا میری پچاس برس سے زیادہ کی عمر ہے بہل کیسے سکتا ہوں ۔ اور اگر مجھے بہلا بھی لیا تو آپ کو کیا نفع ہوسکتا ہے کیوں کہ اس طریق میں صدق اور خلوص ہی تو ہے جو کچھ ہے جو کچھ ہو صاف ہو۔ میرے یہاں اشارات اور کنایات کی قدرت ہی نہیں ۔ اگر کوئی کہتا ہے مجھے خادم بنالیجئے ۔ میں کہہ دیتا ہوں کہ سمجھ میں نہیں آٰیا صاف کہو ۔ اگر کہتا ہے سرپر ہاتھ رکھ لیجئے ۔ میں پھر کہتا ہوں سمجھ میں نہیں آیا صاف کہو۔ اگر کہتا ہے غلامی میں داخل کرلیجئے ۔ میں پھر یہی کہہ دیتا ہوں کہ سمجھ میں نہیں آیا صاف کہو ۔ جب کہتا ہوں مرید کرلو ۔ تب کہتا ہوں کہ ہاں اب کہی ٹھیک ٹھیک ۔ غرض الفاظ صاف واضح الدلالتہ ہونے چاہیئں ۔ گول الفاظ سے غلظ فہمی ہوتی ہے ۔ پھر فرمایا کہ بہت احباب میرے اس طریقہ کے مخالف ہیں کہ آتے ہی متوحش کردیتے ہو ۔ تدریجا سب باتیں بتلانی چاہیئں ۔ میں کہتا ہوں یہ دفتر یاد کون رکھے کہ کون سے بات کہہ چکا اورکونسی کہنے کورہ گئی ۔ اول ہی روز سب باتیں صاف صاف کیوں نہ کہہ ڈالے روز روز بیٹھ کر کون دھندا لگائے ۔ جو رہتا ہو رہو ورنہ اور بہت جگہ موجود ہیں ۔ میرے اوپر کوئی دارمدار تھوڑا ہی ہے ۔ پھر اس میں طالب کو بھی بے لطفی ہے جب کوئی نئی بات سنے گا کہے گا لو اور نکلی ۔ دوسرے دن پھر کوئی نئی بات پھر کہے گا تو یہ آج اور نکلی ۔ ساری عمر بھی اطمینان نہیں ہوگا بے چارہ کو کہ جانے کیا کیا نکالیں گے پیٹ میں سے ۔ بلکہ میرا مشرب اتنا سخت بھی نہیں جتنا اول تاریخ میں ظاہر کردیتا ہوں۔ تاکہ دھوکہ نہ رہے اور بعد کو بے لطفی نہ ہو ۔ کیونکہ اس سے زیادہ وہ سنے گا ہی نہیں ۔ جو کم ظاہر کیا جاتا ہے اور پھر نکلتا بہت تو وہ بے لطفی نہ ہو ۔ کیونکہ اس سے زیادہ وہ سنے گا ہی نہیں ۔ اور جو کم ظاہر کیا جاتا اور پھر نکلتا بہت تو وہ بے لطفی کا سبب ہوتا پھر سلسلہ سخن میں فرمایا کہ جاہلوں کے عقیدہ میں پیر کی بابت بہت غلو ہے بلکہ اہل علم کو بھی غلو ہے گو وہ جاہلوں کی طرح پیر کو خدا کی برابر کے نہیں سمجھتے لیکن کشف کے متعلق ان کو بھی غلو ہے مثلا سمجھتے ہیں کہ جب غائب کی طرف متوجہ ہوں گے معلوم کرسکتے ہیں ۔ خدا بچائے بلک گمراہی سے اور اسی کی فرع دوسرا غلو ہے کہ پیروں سے دنیوی امور میں مشورہ لیتے ہیں ۔ بڑی مدتوں کے بعد اس کی وجہ معلوم ہوئی ۔ یوں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی زبان سے جو نکلے گا اس میں ضرور کامیابی ہوگی ۔ بعضے اس میں تاویل کرتے ہیں کہ صرف برکت کا اعتقاد ہوتا ہے سو برکت تو دعا مٰیں ہوتی ہے اس پر کفایت کیوں نہیں کرتے کیا برکت کے یہی معنی ہیں ناکامی بھی تو برکت ہی کی ایک فرد ہے ۔