ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
فرماتے تھے کہ میرے سامنے ایک تسبیح ہوا کے اندر معلق ظاہر ہوئی ۔ تقریبا تخمینا سو دانے اس میں تھے لیکن ایک عجیب ترتیب کے ساتھ ہر دس دانے پر ایک حلقہ نورانی تھا جس سے گویا احاد اور عشرت میں اور پھر باہم عشرات میں فرق کیا گیا اور ان میں سے اول کے دس دانے بہت ہی کم نور مٹے مٹے تھے اس کے بعد جو دس دانے تھے ان میں سے پانچ تو پچھلے دانوں سے کچھ روشن تھے اس کے بعد روشنی بڑھتی گئی اسی طرح چھ حلقے گئے پس ساٹھ دانہ تو یہ ہوئے پھر تین دانے اور تھے یہ سب متصل تھے کل 63 ہوئے بقیہ دانے الگ تھے گنے نہیں تو بھائی یہ میری عمر مجھے دکھلائی گئی ہے ۔ اور جو شروع دس دانے مٹے ہوئے تھے وہ بالغی کا زمانہ تھا بعد کے پانچ دانے کچھ ان سے روشن تھے وہ پانچ برس مراہقت کے زمانہ کے تھے جس میں نماز کی بابت حکم ہے کہ مار کر پڑھائی جائے ۔ چنانچہ بزرگ اس زمانہ میں نماز پڑھنے کی تاکید رکھتے ہیں اور گو روزہ کا حکم نہیں لیکن روزہ بھی رکھواتے ہیں اس لئے یہ پانچ دانے ان سے زیادہ روشن تھے لیکن پھر بھی بعد کے دانوں سے روشنی کم تھی کیونکہ اس زمانہ کی عبادت محض نفل ہوتی ہے مگر 14،15 برس کی عمر میں عمر میں بالغ ہوجاتا ہے پھر نماز روزہ وغیرہ فرض ہوجاتا ہے اس کے بعد علم وعمل بڑھتا گیا چنانچہ روشنی بھی دانوں پر بڑھتی گئی اس کے یہ معنی ہیں کہ 63 سال میری عمر ہوگی مگرمولوی صاحب کی اس سے کم ہوئی معلوم ہوتا ہے کہ گننے میں غلطی ہوئی ۔ کشف صحیح ہے ۔ تسبیح سے عمر ہی مراد تھی پھر فرمایا کہ بڑا مزہ آتا تھا ۔ مولوی صاحب کے سبق میں ایسی ایسی باتیں فرمایا کرتے تھے سبحان اللہ ! کیا لوگ تھے ایک بزرگ یہاں آیا کرتے ہیں حضرت مولانا گنگوہی سے بیعت ہیں وہ صاحب کشف ہیں وہ کہتے تھے کہ مولانا محمد یعقوب کی قبر پر میں فاتحہ پڑھنے گیا تو مجھے مولانا نے ایک لقب دیا عجیب لقب دیا وہ اشعار درد کے اور نعت کے اور پیروں کی مدح میں بہت پڑھا کرتے ہیں تو اس کے مناسب مولانا نے مزار سے ان کو لقب دیا ۔ محمدی بھات ہنستے تھے کہ بھائی ہمیں تو یہ لقب مولانا نے دیا ہے مولانا ظریف بہت تھے دیکھئے ظرافت اس کو سوجھتی ہے جو شگفتہ ہو وہاں تو شگفتگی ہی شگفتگی ہوگی یہاں رنج وغم وغیرہ بھی رہا کرتے ہیں یہ تو بڑی فرصت کے کام ہیں کہ لوگوں کے لقب تجویز کریں ۔ حکیم معین الدین صاحب مولانا کے صاحب زادے یوں فرماتے تھے کہ مولانا کے انتقال کے بعد برسات کے شروع میں جاڑا بخار کی کثرت ہوئی تو لوگ مولانا کی قبر پر سے مٹی لالا کر بازو پر باندھنے لگے باندھتے ہی بخار بلکل موقوف ہوجاتا میں قبر پر مٹی ڈال دوں وہ پھر اڑ جائے میں دق ہوگیا ۔