کارکنان تبلیغ کے لیے مولانا محمد الیاس صاحب کی مفید باتیں اور اہم ہدایاتت |
عوت وتب |
|
تھانویؒ کی زیر نگرانی وحسب ایماء ، تبلیغی وفدکی محنت کا سلسلہ تقریباً دو سال تک اسی علاقہ و اطراف میں جاری رہا، اسی موقع پر اردو ہندی میں مختلف تبلیغی رسائل بھی تصنیف کراکر تقسیم کرائے گئے اور مکاتب و مدارس کے قیام کی مہم چلائی گئی، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔ اشرف السوانح ۳؍۲۳۰ تا ۲۴۱ میں دعوت و تبلیغ سے متعلق اہم مضامین ہیں ، دعوت و تبلیغ کا کام کرنے والوں کو خصوصا ذمہ داروں کو اس کا مطالعہ کرنا انشاء اللہ بہت مفید ثابت ہوگا۔ حضرت مولانا محمد ثانی حسنی مظاہری اپنی کتاب ’’حیات خلیل‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں : ۱۳۴۱ھ میں جب راجپوتانہ اور آگرہ سے ارتداد کی خبریں آنی شروع ہوئیں تو حضرت تھانویؒ کو اس کی فکر ہوئی اور انہوں نے وفود بھیجنے شروع کئے، مظاہرعلوم سے حضرت مولانا کے تلامذہ اور متعلقین جن پر آپ کو اطمینان تھا، اس مبارک کام کے لیے منتخب ہوئے۔ جن میں مولانا اسعد اللہ صاحب مدظلہ، مولانا عبدالکریم گمتھلوی اور حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلوی جو حضرت مولانا (خلیل احمد صاحب سہارنپوری) ہی سے مجاز تھے۔ قابل ذکرہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سلسلہ میں حضرت تھانویؒ اور مولانا محمد الیاس صاحب کی انتھک محنتوں اور کوششوں نے بڑا کام انجام دیا۔ (حیات خلیل ص:۲۴۰) دعوت و تبلیغ کے سلسلہ سے منسلک ہونے اور امت کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ نے محسوس فرمالیا تھا کہ امت کے ایمان کی بقاء و تحفظ اور شعائر اسلام کی حفاظت کے لیے اس سے زیادہ وسیع اور عمومی پیمانہ پر اس کام کو کرنے کی ضرورت ہے، چنانچہ اسی فکر کے ساتھ عمومی پیمانہ پر آپ نے اس کام کو شروع کردیا، اور مرکز نظام الدین کو آپ نے اپنے اس کام کا مرکز بنایا، اور ابتداء میں میوات اور اس کے اطراف کے لوگوں کو اپنی دعوت و تبلیغ کی محنت کا میدان بنایا، اور دعوت و تبلیغ کے اس