کارکنان تبلیغ کے لیے مولانا محمد الیاس صاحب کی مفید باتیں اور اہم ہدایاتت |
عوت وتب |
|
پڑھے یا نہ پڑھے۔ یہ حال تو ہے تبلیغ کا کہ ایسا کرنے سے آپ کو اَلاَ فَلْیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الغائبَاور بلِّغُوْا عَنِّی ولو آیَۃ (بخاری شریف ۱؍۴۹۱) کا ثواب مل جائے گا، اور آپ اس فضیلت کے مستحق بن جائیں گے۔ اب دیکھئے تعلیم کو کہ اس کا حال تبلیغ سے مختلف ہے، تبلیغ میں صرف بات کا پہنچانا ہوتا ہے جب کہ تعلیم میں بات کا پہنچانا ہی نہیں بلکہ سکھانا ، سمجھانا، بتلانا، رٹانا، یاد کرانا، نگرانی کرنا، سننا، نہ یاد ہونے پر تنبیہ کرنا، غلط یا د ہونے پر اس کی تصحیح کرنا پھر اس کے بعد عمل کی نگرانی بھی کرنا اور باز پرس کرنا، تعلیم و تربیت کے دائرہ میں اتنی باتیں آجاتی ہیں ۔ مثلاً مدارس میں بعد عشاء دعاؤں کا مذاکرہ ہوتا ہے یا مکتب میں بچوں کودعاؤں کے سکھانے ، یاد کرانے کا اہتمام ہوتا ہے، سارے بچوں کو لائن سے کھڑا کردیا گیا، ایک بچہ سب کو پڑھاتا ہے سارے بچے رٹتے یاد کرتے ہیں ، دوسرے تیسرے بچے سے پڑھوایا جاتا ہے، دوسرے تیسرے دن دعا سنی جاتی ہے، جس کو یاد نہ ہوں اس کو تنبیہ کی جاتی ہے، غلط یا د ہو تو صحیح کرانے کی کوشش کی جاتی ہے، اپنی نگرانی میں عمل کرانے کی بھی کوشش ہوتی ہے یہ عمل صرف تبلیغ نہیں ہے، بلکہ اس میں تبلیغ کے ساتھ تعلیم بھی ہے، تربیت بھی ہے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بڑی تعداد میں صحابہ کو انفرادی طور پر صرف تبلیغ پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ تعلیم فرمائی ہے، صحابی کے غلط پڑھنے پر آپ نے ٹوکا ہے تصحیح بھی کرائی ہے، اور فرمایا ہے انما بعثت معلماً اللہ نے مجھ کو معلم بنا کر بھیجا ہے، دین کے دوسرے حلقوں کے مقابلہ میں آپ نے علمی حلقہ کو ترجیح دی ہے، اور ان کو زیادہ افضل قرار دیا۔ (دارمی، مشکوٰۃ شریف ص:۳۶، کتاب العلم) یہ حال تو صرف بطور مثال کے دعا کا تھا ورنہ شریعت کے دیگر اہم مسائل اور احکام شرعیہ کو آپ نے اچھی طرح سمجھایا ہے، لوگوں کے سوالات کے جوابات دئیے ہیں ، شکوک و شبہات کا ازالہ فرمایا ہے، یہ سب تعلیم و تربیت کے دائرہ میں آتا اور آپ نے