کارکنان تبلیغ کے لیے مولانا محمد الیاس صاحب کی مفید باتیں اور اہم ہدایاتت |
عوت وتب |
|
ہے فرض، ہر ایک مسلمان پر فرض عین ہے۔ درسگاہیں بمنزلہ سمندر کے ہوں اور یہ پھرنے والے (تبلیغ والے) بطور نالیوں کے۔ (ارشادات و مکتوبات ص:۸۲ و ۸۳) تشریح: حضرتؒ نے تبلیغ و تعلیم کا فرق اور دونوں کی اہمیت کو بیان فرمایا ہے، تبلیغ ان لوگوں کو کی جاتی ہے جن کے اندر طلب نہیں ، پیاس نہیں ، ان کے پاس جاکر ان میں طلب پیدا کی جاتی ہے، رغبت دلائی جاتی ہے، جب کہ تعلیم طالبوں کے لیے ہوتی ہے، جن کے اندر طلب ہے پیاس ہے، فکرہے۔ تبلیغ میں صرف بات کا پہنچادینا، پیاس اور طلب پیدا کرنا ہوتا ہے جب کہ تعلیم میں بتانا ، سمجھانا، سکھلانا، نگرانی کرنا، یاد کرانا، نہ یاد ہونے پر یا غلط یا د ہونے پر تنبیہ کرنا، یہ سب تعلیم کے دائرہ میں آتا ہے،یعنی تبلیغ، تعلیم کے لیے بمنزلہ ذریعہ اور وسیلہ کے ہے، اس پہلو سے افادیت کے لحاظ تعلیم کی اہمیت تبلیغ سے بھی زیادہ ہے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ایک مرتبہ کفار کو تبلیغ فرمارہے تھے کہ اتنے میں عبد اللہ بن ام مکتوم نابینا صحابی دین کی کسی بات کو سیکھنے کے لیے طالب بن کر حاضرہوئے ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اس وقت کفار کو تبلیغ کرنے میں مصروف تھے اس لیے آپ نے اس وقت ان کی طرف توجہ نہیں فرمائی کہ یہ تو اپنے ہیں ان کو بعد میں تعلیم کردیں گے، میں اس وقت کفار کو تبلیغ کررہا ہوں ۔ یہ آپ کا اجتہاد تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہدایت فرمائی اور یہ آیتیں نازل ہوئیں ’’عَبَسَ وَتَوَلَّی، اَنْ جَآئَ ہُ الْاَعْمٰی‘‘ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اس وقت بے طلبوں میں تبلیغ فرمارہے تھے، اور یہ صحابی س دین سیکھنے کی غرض سے طالب بن کر آئے تھے، اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر تبلیغ کے مقابلہ میں تعلیم کو ترجیح دی کہ یہ طالب ہیں ، یہاں نفع یقینی ہے، اور جن کو آپ تبلیغ فرمارہے ہیں ان کو نفع پہنچنا غیر یقینی ہے، اس لیے غیر طالب جہاں نفع غیر یقینی ہو، ان کو طالبین ومتعلمین کے مقابلہ میں ترجیح نہیں ہوگی، یہ اللہ