ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
وعظ میں کہا تھا کہ اس کا واقعہ یہ ہے کہ ایک مدرسہ میں ایک مسجد ایک ریاست کی جاگیر دار رئیسہ بنوائی ہے اس کے افتتاح کا جلسہ رئیسہ نے کرایا تھا اور خود بھی تشریف لائی تھیں انہیں نے مہتمم صاحب کو لکھا تھا کہ آپ اپنے مدرسہ کے سرپرستوں جمع کرلیجئے گا ۔ مہتمم صاحب مجھے لکھا نہایت ناگوار ہوا ۔ میں نے لکھا کہ میں ہرگز نہیں آونگا اگر ہم اس ریاست میں کسی کو لکھ کر بھیجیں کہ ہم فلاں تاریخ وہاں آئیں گے ۔ فلاں رئیسہ کو کہ دینا کہ ہم سے فلاں جگہ ملیں تو کیا وہ پسند کری گی پھر ان میں کیا چیز زیادہ ہے ۔ مہتمم صاحب نے لکھا کہ یہ تو ان کے کارندہ کی بے تمیزی ہے کہ ایسا مضمون لکھ دیا ۔ میں نے لکھ دیا ایسا کارندہ رکھنا بھی محل شکایت ہے ۔ میں نے لکھ دیا کہ بات یہ ہے کہ میں نے ان کے بلانے سے اس ذلت کے ساتھ نہیں آؤنگا ۔ اگر بلاتی ہے استقبال کا سامان کریں اول منظوری لیں لیکن ہاں آپ کے بلانے سے آؤنگا اور جوتیاں چٹخاتے ہوئے آؤنگا ننگے پاؤں آؤنگا لیکن ان سے نہ ملوں گا ۔ پھر مدرسہ کی طرف سے بلانے پر پہنچ گیا۔ اور اسٹیشن سے پیدل ہی مدرسہ پہنچا وہ اینٹھ مروڑ تو امیروں کے مقابلہ میں نے وہاں وعظ کہا اور اس میں شکریہ وغیرہ کے یہی کہا کہ امراء کے پیسہ میں جو برکت ہے تو غرباء ہی کے پیسے شامل ہونے سے ہے امراء کو احسان مند ہونا چاہیے غرباء کا مجھے اندیشہ تھا کہ بعض بعض کہیں حضرات مدرسہ اصرار نہ کریں ان رئیسہ سے ملنے کا اس لئے میں وعظ کہ کر سیدھا اسٹیشن پہنچ گیا ۔ ان رئیسہ نے مٹھائی بھی تقسیم کی تھی ۔ مجھے مٹھائی اسٹیشن پر بھیجی ۔ اور کہلا بھیجا اس میں شبہ نہ کیجئے یہ میراحصہ ہے میں نے دعا کی بیچاری بہت دیندار اور نیک بخت ہے مگر حضرت امراء کے ساتھ یوں ہی کرنا چاہیے ۔ ایک قصبہ میں ایک جامع مسجد بنتی تھی ایک وعظ ہیں ۔ انہوں نے ان رئیسہ کے یہاں عرضی دی کیسی ذلت کی بات ہے رئیسہ نے کہا کہ مولانا اتنے تکلف کی مسجد کی کیا ضرورت تھی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے تو زیادہ کوئی مسجد نہیں ۔ چھیر ڈال لینا بھی کافی تھا آپ جائیے جو کچھ میری سمجھ میں آئے گا بھیجدوں گی ۔ پھر انہوں نے بھیجا کئی ہزار مگر کیا ہوا ۔ مجھے تو بہت ہی برا معلوم ہوا بات بھی انہوں نے ایسی کہی کہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے تو زیادہ کوئی مسجد نہیں چھیر ڈال لینا بھی کافی تھا وہاں ان واعظ صاحب سے کچھ نہ بنی ۔ حامد علی میرا بھتیجا بچہ تھا ایک مقام پر میرے ساتھ گیا وہاں کی مسجد دیکھ کر اس نے مجھ سے پوچھا کہ ایسے ہی نقش ونگار مسجد میں کیا حضور کے زمانہ میں بھی تھے وہ میرے تیز اور سلیم طبیعت ہے قبل اس کے کہ میں جواب دوں ایک رئیسہ متولی جی بیچ میں بولے کہ اس زمانہ میں ضرورت نہ تھی اور اب ضرورت ہے اس واسطے کہ کفار کے دلوں میں مسلمانوں