ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
تو خلاف ہے ۔ حضرت حاجی صاحب نے خود مجھ سے بیان فرمائی مولانا محمد قاسم صاحب کی حکایت کہ حضرت حاجی صاحب نے کوئی تحریر نقل کرنے کے لئے انہی دی ایک جگہ حضرت سے غلطی ہوگئی تھی ۔ مولانا نے نقل کرتے وقت جگہ چھوڑ دی نہ بنایا نہ صحیح کرکے لکھا کیونکہ یہ ادب کے خلاف ہے بعد کو اطلاع بھی کی تھی تو اس طرح کے حضرت یہ مقام سمجھ میں نہیں آتا۔ ملاحظہ فرمالیا جائے حضرت فرماتے تھے کہ جب میں نے دوبارہ دیکھا تو معلوم ہوا کہ افوہ مجھ سے غلطی ہوگئی تھی ۔ احقر نے عرض کیا کہ ہم لوگ تو محض عوام ہیں ۔ ہماری بدفہمی کے قیاس پر مطلقا اجتہاد کی قابلیت کی نفی کیسے کی جاسکتی ہے ۔ ایسے حضرات کا فہم معتبر ہوسکتا ہے ۔ جیسے حضرت مولاما گنگوہی حضرت مولانا محمد قاسم صاحب تو ان کی مجتہد کیوں نہ کہا جائے ۔ فرمایا کہ یہ حضرات مجتہد نہیں تھے مجتہد کو دوسرے کی تقلید حرام ہے مجتہد گنہگار ہوگا ۔ اگر تقلید کریگا ایسی مثال ہے کہ جیسے سوانکھا کہے کہ نہیں میں آنکھ بند کرکے دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر چلوں گا ۔ پھر فرمایا کہ آپ کہتے ہیں کہ ہم لوگ عوام ہیں تویہ بھی دیکھئے کہ بات بھی تو ویسی ہی موٹی تھی۔ جس میں ان صاحب نےاس وقت غلطی کی ہے بس یہی حال ہوگا ۔ علماء غیر مجتہدین کا باریک باتوں میں پھر فرمایا کہ رام پور میں ایک طالب علم تھے جن کی کتابیں ختم کے قریب تھیں ان کی درخواست پر میں نے ان کو لاحول پانچ سو بار پڑھنے کیلئے بتلایا تھا ۔ ایک بار مجھ سے مل کر شکایت کی کہ نفع نہیں ہوا آپ کے بتلانے پر لا حول لاحول پانچ سو مرتبہ پڑھ لیتا ہوں ۔ لیجئے یہ مولوی تھے لاحول سے میرا مطلب پوری لاحول تھا ۔ وہ صرف لاحول ہی سمجھے میں نے کہا لا حول ولاقوۃ ۔ میں نے بھی لاحول پڑھ دی بہت ہی قحط ہے فہم کا ۔ بڑی غنیمت ہے وہ حضرات دین کو مفتح کرکے مدون کرگئے ۔ اطمینان سے بیٹھے بس ان کی تقلید کئے جائیں اسی میں سلامتی ہے اول تو فہم نہیں دوسرے تدین نہیں اگر اجتہاد کی اجازت ہوتو رات دن اپنے نفس کے موافق مسئلے نکالا کریں ۔ ایسی دوران گفتگو میں ایک ذی علم وذی استعدار مولوی صاحب کا بھیجا ہوا فتویٰ غیرجگہ سے بغرض دستخط ایک صاحب نے لاکر دیا کہ فلاں صاحب نےدیا ہے ۔ حضرت نے دریافت فرمایا کہ یہ واپس کس طرح جائیگا ۔ لانے والے صاحب نے کہا کہ مجھ سے تو کچھ بھی نہیں کہا ۔ صرف یہ دینے کیلئے کہہ