ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
کے استفسار کے نہیں دیا ۔ اور خود حضرت کے خیال میں نہیں آیا کہ یہ اس لئے اجازت چاہئے اس لئے اس پر حضرت کو تو نہایت انقباض ہوا اور چنانچہ طبیعت لطیف ہے ان کو اٹھا دیا کیونکہ ان کو دیکھ کر اور بھی طبیعت منقبض ہوتی ۔ بعد کو فرمایا کہ ان کے خواہ مخواہ اس احتمال کو نکالنے کی ضرورت ہی کیا تھی ۔ اگر شرک خلاف مصلحت ہوتی میں خود ہی روک دیتا لیکن جب احتمال پر پوچھنا تھا میرے پوچھنے پر جواب بھی دیا ہوتا انہیں صاحب کی معذرت پر یہ گفتگو ہورہی ہے ) ساری خرابی خود رائی کی ہے ۔ اتنے دن آپ کو یہاں رہتے ہوگئے ہیں لیکن آپ کی خود رائی کی عادت میں رائی برابر بھی فرق بھی علاہ اس کے آپ نے اس وقت اتبا بھی نہ فرمایا کہ صاحب مجھ سے غلطی ہوگئی ۔ محض ساکٹ بیٹھا رہنا اس بات کے سمجھ لینے کیلئے کہ غلطی کو تسلیم کرلیا کافی نہیں ہوتا ۔ کیونکہ سکوت سے یہ بھی شبہ ہوسکتا ہے کہ محض ادب کی وجہ سے ساکت ہوں اور دراصل اپنی غلطی کی بابت اطمینان نہ ہوا ہو چنانچہ اس وقت بھی آُپ ساکت بیٹھے ہوئےہیں ۔ اس وقت بھی یہی شبہ ہے اسی طر ح پڑھانے میں اگر ہوں ہاں کرتے رہے تو میری طبیعت بڑھتی ہے ورنہ شبہ رہتا ہے کہ نہ معلوم سمجھا بھی یا نہیں اگر کوئی بولے کچھ نہیں منہ کو تکتارہے تو پڑھانے میں میری طبیعت کھلتی نہیں آپ سے وجہ تصریحا پوچھی گئی لیکن پھر بھی آپ نے یہی کہ دیا کہ بس حکم اجازت کا معلوم ہوگیا ۔ اب وجہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں رہی تو گویا آپ نے میری وجہ پوچھنے کو ایک لغو حرکت سمجھا ۔ توخود موقوف تھا وجہ کے معلوم ہونے پر کیونکہ میں کوئی علم غیب تو پڑھا ہی ہوا نہ تھا ۔ بدوں اس کے جس کو آپ سمجھے وہ حکم بھی ابھی حاصل نہیں ہوا ۔ کوئی علم غیب تو پڑھاہی ہوا نہ تھا۔ بدوں اس کے جسم کو آپ حکم سمجھے وہ حکم بھی ابھی حاصل نہیں ہوا ۔ اب دیکھئے یہ بڑے میاں ( ایک دیہاتی نے اپنے کسی عزیز کی بیماری کا حال تو تفضیلا بیان کردیا اور یہ نہیں بتلایا کہ کیا چاہتا ہے ) آئے انہوں نے ایک بحرطویل ہانک دی اور یہ نہیں بتلایا کہ مجھ سے کیا تفشیش کے کہا تھا میری بھی محنت صائع جاتی ۔ افسوس آپ کا کوئی کا کلام خودرائی میں فرق نہیں آیا ۔ البتہ جس سے تعلق نہ رکھنا ہو وہ اگر مجھے گالیاں بھی دے تو بھی کچھ نہیں لیکن تعلق والوں کی بے عنوانیوں سے بہت تکلیف ہوئی ہے ۔ آپ میں سب کمال ہیں مگر اتباع نہیں ۔ طباعت میں مخدوم بنے رہے ہیں اس لئے مزاج میں اجتہاد کی