ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
رہتی ۔ جب کوئی آیت حل کرنے کی حاجت ہوتی ہے اپنی تفسیر سے دیکھ کر حک کرتا ہوں پچھلا لکھا ہوا نہیں یاد رہتا ۔ اسی طرح مثنوی شریف بھی بدوں مطالعہ نہیں پڑھا سکتا ۔ یہ قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ اس کے مطالب کا احاطہ نہیں ہوتا اور مثنوی کی کرامت ہے کہ اس کا بھی احاطہ نہیں ہوتا ۔ پچھلی تقریر بھی نہیں یاد رہتی ۔ پھر فرمایا کہ یہ بھی بات ہے پچھلا یاد رہتا تو مزانہ آتا پڑھانے میں بس مطرب خوش نوابگو تازہ بتازہ نوبہ نو اگر حضرت سے مسائل فن سنے ہوئے نہ ہوتا تو واقعی بات یہ ہے کہ حل نہ ہوتا ۔ باقی مطالعہ اب بھی کرنا پڑتا ہے اور جس کو قدرت کہتے ہیں مثنوی پر وہ نصیب نہیں ہوئی مثنوی شریف مولوی صدیق صاحب نابینا مراد آبادی پڑھاتے ہیں بس نیکی سے ان کو انکشاف علوم کا ہوجاتا ہے ۔ تقویٰ طہارت ایسی ہی چیزیں ہیں جن سے علوم کہتے ہیں ۔ حضرت حاجی صاحب بھی اصلاحی عالم نہ تھے لیکن حضرت کے علوم سے علماء دنگ تھے ۔ مولانا قاسم صاحب کتنے بڑے عالم تھے یوں فرماتے تھے کہ حضرت حاجی صاحب کا کوئی تقوی کی وجہ سے معتقد ہے کوئی کرامت کی وجہ سے حضرت کے علم کی وجہ سے معتقد ہوں ایسا شخص یوں کہے پھرحد ہے اور راز اس میں یہ ہے کہ حضرت دیکھے ہوئے تھے وہ دیکھی ہوئی باتیں فرماتے رہے تھے نرا سننے والا طالبعلمی شبھات کرے گا کچھ دیکھے ہوئے ہو تو سمجھ سکتا ہے سنے ہوئے ہیں اور دیکھے ہوئے میں بڑا فرق ہے دیکھنے ولا سننے والے کو اس طرح کیسے سمجھا سکتا ہے جیسے ایک شخص سامنے کھڑا ہوا ہو اس کو دکھلا کر یوں کہے کہ دیکھ یہ کھڑا ہے ۔ یہ ضرور نہیں کہ پورا مشاہدہ کیے ہوئے ہو لیکن ہاں کچھ تو دیکھے ہوئے ہو چاہے ریل ہی سے دہلی دیکھی ہو جس سے وہ قیاسی قیل وقال طالب علمی کی دب گئی ہو ۔ کجروی کج بخش ختم ہوچکی ہو حقائق کے ساتھ ذرا مانوس ہوگیا ہو کچھ ذکر شغل کئے ہو چسکا کیفیات کا چکھے ہو تو وہ سمجھے ورنہ نرایمکن ویحتمل محض بیکار ہے ایک طالب علم گئے تھے تیلی کے یہاں تیل لینے وہاں دیکھا کہ بیل کو کولو میں اکیلا چل رہا ہے اور وہ تیلی اپنے اور گھر کے کاموں میں مشغول ہے بیل کے گلے میں ایک گھنٹی بھی بندھی ہوئی تھی طالب علم صاحب نے گھنٹی کی وجہ پوچھی اس نے کہا کہ اجی ہم غریب آدمی ہیں کوئی نوکر نہیں چاکر نہیں ۔