ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
ہرشے کو اپنے مرتبہ پر سمجھتا ہے ۔ حضرت حاجی صاحب کو بعضے نادان نعوذباللہ بدعت کی طرف نسبت کرتے ہیں جہاں مولود ہوتا تھا تشریف لے جاتے تھے لیکن وہ تشریف لے جانا بھی ایسا تھا کہ ایک مرتبہ مولود شریف میں بلا وا آیا ۔ حضرت گنگوہی بھی حاضر خدمت تھے ۔ مولانا سے پوچھا چلو گے ۔ مولانا نے عرض کیا نا صاحب میں نہیں جاؤں گا ۔ میں ہندوستان میں اس کو منع کیا کرتا ہوں ۔ حضرت نے فرمایا مولوی صاحب ! واللہ میں تمہارے جانے سے اتنا خوش نہ ہوتا ۔ جتنا کہ نہ جانے سے خوش ہوا ۔ جزاک اللہ ۔ بارک اللہ ! دیکھئے کس قدر وسعت تھی کہیں بدعتی ایسا کہہ سکتا ہے ۔ حضرت مولانا گنگوہی کی بابت لوگ کہتے تھے کہ پیر کے خلاف کرتے ہیں ان کے معتقد نہیں ہیں ۔ مولانا نے فرمایا کہ دیوانے ہوئے ہیں ۔ ہم نے جس مقصود کے لئے امام حضرت حاجی صاحب کا دامن پکڑا ہے اس کی تو ان لوگوں کو ہوا بھی نہیں لگی ۔ حضرت جس فن کے امام ہیں اس میں ہم ان کےمقلد ہیں ۔ باقی ان فرد عیات میں ہم امام ہیں حضرت حاجی صاحب کو چاہیے کہ ہم سے پوچھ پوچھ کر عمل کیا کریں ۔ حضرت مولانا فرمایا کرتے تھے ۔ کہ ہمیں تو ہمیشہ یہ عادت رہی ہے کہ حضرت حاجی صاحب اور حضرت حافظ ضامن صاحب ہم سے مسئلہ پوچھ پوچھ کر عمل کیا کرتے تھے ۔ ہم حضرت حاجی صاحب کا فقہی مسائل میں کیسے اتباع کرلیں ۔ یہاں تو حضرت ہمارا اتباع کریں۔ پھر ہمارے حضرت نے فرمایا کہ حضرت لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ حضرت مولانا کو حضرت حاجی صاحب سے محبت نہیں تھی عقیدت نہیں تھی ۔ اللہ اکبر وہ کیا جانیں ۔ حاجی محمد اعلی انبہٹوی جب حج سے واپس آئے تو انہوں نے مشہور کیا کہ حضرت حاجی صاحب نے مجھے سماع کی اجازت دے دی ہے ۔ کسی نے مولانا کی خدمت میں یہ حکایت بیان کی بڑا مجمع تھا ۔ حضرت مولانا نے فرمایا کہ حاجی محمد اعلی غلط کہتے ہیں ۔ اور اگر یہ صحیح کہتے ہیں تو حاجی صاحب غلط کہتے ہیں ۔ بڑی بدنامی ہوئی کہ پیر کے لئے ایسا کہا مگر محبت کی یہ کیفیت تھی کہ جب حضرت حاجی صاحب کا انتقال ہوا تو ہم نے تو ایک وقت کا بھی کھانا نہیں چھوڑا ۔ مگر مولانا کو دست لگ گئے ۔ کئی روز تک کھانا نہیں کھایا گیا ۔ اس زمانہ میں لوگوں نے اکثر یہی کہتے سنا کہ ہائے رحمتہ العالمین ۔ واقعی حضرت کی شان رحمت تھی ۔ ایسا نفع عام اور تام تھا کہ کہیں دیکھنے میں