ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
فرمایا کہ دوسرے کو پریشان کرکے سمجھے تو کیا سمجھے اول ہی توجہ کے ساتھ سنتے تو ایذا رسانی کی کیوں نوبت آتی ۔ اگر شبہ ہوتو اسے پیش کرنا ضروری ہے اس گرانی نہیں ہوتی پھر حضرت نے دریافت فرمایا کہ میں آُپ سے یہ پوچھتا ہوں کہ جس وقت میں نے تقریر کی ہے آیا آپ کی توجہ تھی یا نہیں ۔ یا آُپ اپنی تقریر حدیث النفس کے طور پر دل ہی دل میں کررہے تھے انہوں نے اس پر معافی مانگی ۔ فرمایا کہ میرے سوال کا یہ جواب تو نہیں اس سے کیا نتیجہ نکل سکتا ہے کہ معاف کردیجئے ۔ میں آخر آپ کی غلطی کی بھی اصلاح کروں ۔ تب انہوں نے فرمایا کہ شاید میں حدیث النفس کے طور پر حضور کی تقریر کے وقت کچھ سوچ رہا تھا فرمایا کہ جب آپ کو میری تعلیم کی اتنی بھی قدر نہٰیں کہ میں تقریر کروں اور آپ اپنی حدیث النفس میں مشغول رہیں تو پھر تعلیم کی کیا صورت ہوگی بس آپ تشریف لے جایئے اپ کا یہاں رہنا فضول ہے ۔ میں آپکی کوئی خدمت نہیں کرسکتا ۔ اس پر انہوں نے معافی چاہا فرمایا لا الہ الا اللہ میں انتقام تو نہیں لیتا کیا اپنی جان بھی بچانے کا مجھ کو حق نہیں کیا یہ ضروری ہے کہ آپ تکلیفیں دیں اور میں انہیں اٹھاؤں ۔ ایک تو خدمت کروں اوپر سے تکلیفیں اٹھاؤں کیا خادم کے ذمہ یہ بھی ضروری ہے کہ خدمت بھی کریں اور تکلیفیں بھی اٹھائے ۔ طالب تو آپ اور تکلیف اٹھاؤ میں آپ رہیں نواب صاحب جایئے اپنا کام کیجئے یہ کہ کر پاس سے اٹھا دیا ۔ پھر فرمایا کہ یہ قدر کی جاتی ہے تعلیم کی آپ نے تو لکھ پڑھ کر بھی غارت کیا ۔ کیا آپ گوارا کرسکتے ہیں کہ آپ تقریر اور طالب علم اپنے دل مٰیں توجہات سوچا کریں ۔ سچی بات یہ ہے کہ آپ کو طلب نہٰیں ہے وہاں جایئے طلب کی قدر نہیں یہاں تو طالب کی قدر ہے جو طالب نہ ہو اس کی قدر نہیں آپ مجھ سے موافقت نہیں آئے گی اس روز ناحق تکلیف پہنچائی آج بھی تکلیف پہنچائی ایسی حالت میں آپ یہاں رہ کر کیا نفع حاصل کرسکتے ہیں اب بتلایئے سب صاحب انصاف سے کہیں کہ میرا کیا قصورہے لوگ مجھ کو تند مزاج کہتے ہیں جب ایک شخص بے قدر تعلیم کی کرے میں کیا کروں پاؤں پکڑوں سجدہ کروں کیا کروں ۔ کہ جس کا نام خوش اخلاقی ہو کوئی دنیا میں ایسا بھی ہوگا کہ طالبین ہی کی تعلیم طالبین ہی کی مصلحت اور وہ کریں بے قدری ۔ یہ کرے ان کی خوشامد ۔ پھر فرمایا کہ اصل یہ ہے انائے کہ پر شدوگر چوں پر 120 ööööö مولانا آپ مجتہد ہیں جب تک اجتہاد کا مادہ نہ نکلے گا کسی بندہ خدا سے آپ کو نفع نہیں پہنچ سکتا۔ آپ بہت بڑا اپنے کو سمجھتے ہیں اگر اتباع سے عار آتا ہے تو کتابیں دیکھ دیکھ کر خود ہی ذکر شغل کرتے رہیئے ۔ خود رو درخت ہوجائے گی ۔ کوئی شاخ ادھر جارہی ہے کوئی ادھر جارہی ہے جیسے بے ڈھنگا ہوتا ہے آپ پیر ہی ہوجائیں گے خصوصا پنجاب میں جہاں پیر بن جانا کچھ مشکل ہی نہیں ۔ کیا طلب کی یہی شان ہوتی ہے کہ تعلیم کی یوں بے قدری کی جائے ۔ یہ مولویوں اور مرض ہے مقتداء بننے کا جہاں چار جاہلوں نے مولوی صاحب مولوی صاحب کہا بس اپنے آپ کو مقتداء سمجھنے لگے آپ تو مقتداء عوام میں ہوں گے اس فن آپ مقتداء نہیں ۔ یہاں اطاعت ہی سے کام چل سکتا ہے اور اطاعت کا مادہ آپ میں ہے نہیں ۔ ہر بات کو نہایت وحشت اور حیرت سے سنتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ قلب بالکل قبول نہیں کرتا کسی اشتہار دے کر تو آپ کو بلایا نہیں ۔ آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی مرضی کے موافق تعلیم تلقین کی جائے اگر طبیب سے نسخہ کی تجویز میں مریض کی خواہش کا اتباع کرے تو وہ طبیب نہیں ہے ڈاکو ہے چوٹٹا ہے کوئی ایسا پیر ڈھونڈئیے جو آُپ کی رائے کے مطابق تعلیم کرے ۔ ہم تو جو کہیں گے تجربہ سے کہیں گے اس وصوف ہو عمل کیجئے ورنہ جائے یہ نہیں ہوسکتا کہ وجہ اور لمیات بھی آپ کو بتلائیں طبیب سے نسخہ سے اجزا کی وجہ کوئی مریض پوچھے کہ کیا وہ اسکو سمجھانے لگے گا بنفشہ اس واسطے لکھا کاسنی اس لئے لکھی وہ صاف کہہ دیگا کہ اگر تم کو اعتقاد ہو اور اعتقاد ہوتو علاج کراؤ ورنہ جاؤ ۔ البتہ اگر کوئی خلاف شرع کام میں بتلاؤں تو بیشک مت عمل کرو پھر فرمایا کہ یہ رہ گئی ہے طلب اناللہ والیہ الخ ۔ پھر دوسرے صاحب اپنا عرض حال کرنے آئے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ یہ دیکھئے لوگوں کی حالت ہے اب میں کہاں تک صبر کروں اور اگر صبر بھی کرلیا تو دوسرے کو کیا نفع ہوا ۔ میں ہاں میں ہاں ملادیتا تو اچھا سمجھا جاتا یہ تو ایسی مثال ہوئی کہ کسی نے طبیب سے چوچھا کہ بینگن کھالیا کروں طبیب نے اس کو منع کردیا کہ مضر ہے مریض نے کہا کہ اجی میرا تو بہت ہی جی چاہتا ہے اس کی تو اجازت ہی دے دو طبیب کا کیا بگڑتا تھا اس نے کہ دیا کہ کھاکر مر ۔ یوں چاہتے ہیں لوگ کہ میں بھی ایسا ہی کیا کروں پھر ان مولوی صاحب نے کئی دن بعد اپنا مفصل حال تحریر لکھ کردیا جس میں یہ بھی ظاہر کیا کہ ذکر کرکے وقت حسب تعلیم حضور محض تصور ذات حق رکھنے سے مجھکو بہت نفع ہوا چونکہ مدت سے مختلف تصورات کا حسب تعلیم ایک شاہ صاحب کے عادی تھا اس لئے سمجھ میں نہیں آتا تھا ۔ واقعی مختلف تصورات