قربانی کرو ،واللّٰہ اعلم۔
اور معروف عربی عالم و مفتی علامہ’’ شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ ‘‘نے اپنے بعض فتاویٰ میں اگر چہ اس کی اجازت دی ہے کہ علما کے ایک نظریے کے مطابق کوئی چاہے، تو مملکت ِسعودیہ کی اتباع کر سکتا ہے، تاہم ہم نے جہاں اختلاف و انتشار پیدا ہونے کا خطرہ محسوس کیا، تو اس سے منع کیا ہے اور یہی کہا ہے کہ ہر علاقے کے لوگوں کو اپنے یہاں کے لوگوں کے ساتھ ہی روزہ و عید کرنا چاہیے، اس سلسلے میں ان کے ایک دو فتاویٰ ملاحظہ کیجیے ، ان سے کسی نے سوال کیا ہے کہ
’’ ہم فلاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ملک میں خادم الحرمین کی جانب سے سفیر ہیں ،یہاں ہمیں رمضان المبارک کے روزوں اور عرفے کے روزے کے بارے میں پریشانی ہے، اس بارے میں ہمارے ساتھی تین قسم کے ہیں : ایک وہ ہیں ،جو کہتے ہیں کہ ہم مملکتِ سعودیہ کے ساتھ روزہ رکھیں گے اور افطار، یعنی عید بھی کریں گے ۔دوسرے وہ ہیں ،جو کہتے ہیں کہ ہم جس ملک میں ہیں ، وہاں کے مطابق روزہ و عید کریں گے اور تیسرے وہ ہیں ،جو کہتے ہیں کہ ہم روزہ تو اس ملک کے مطابق رکھیں گے اوریومِ عرفہ سعودی کے مطابق مانیں گے۔ آپ اس میں شافی جواب سے رہنمائی کریں ۔
اس سوال کے جواب میں علامہ العثیمین نے لکھا کہ
’’ ایک ملک میں چاند نظر آئے اور دوسرے میں نہ دکھائی دے، تو اس بارے میں علما کا اختلاف ہے کہ کیا تمام مسلمانوں پر اس پر عمل لازم ہے یا صرف ان پر، جنھوں نے دیکھا اور جو ان کے مطلع میں ان