خبریں شامل ہیں ، اخبارات کی خبر اگر حدِ تواتر کو پہنچ کر خبر ِمستفیض (مشہور) ہو گئی، تو اس پر عمل لازم ہے؛ خواہ ہلالِ رمضان کا قضیہ ہو یا دوسرے أہلَّہ (ہلال کی جمع)کا‘‘۔(۱)
اگر اوپر کی صورت کی طرح خبر مشہور نہ ہو؛بل کہ ایک دو اخبارنے کسی جگہ کی رؤیت نقل کی ہو، تو اگر یہ ثقہ لوگوں کی خبر ہو، تو رمضان کے لیے اس پر عمل کرنا درست ہے، عید کے لیے درست نہیں ۔(۲)
موجودہ دَور میں عدالت کا معیار
یہ معلوم ہے کہ بعض صورتوں میں چاند کا ثبوت عادل آدمی کی خبر پر اور بعض صورتوں میں شہادت پر رکھا گیا ہے اور شہادت کے لیے بھی عدالت کی شرط ہے،ان مواقع پر فاسق و فاجر کی خبر و گواہی معتبر نہیں ؛مگر موجودہ دَور میں ظاہری ترقی نے روحانیت و انسانیت کو جو تنزل کا تحفہ دیا ہے ، اس نے ایک سوال یہ بھی پیدا کردیا ہے کہ اب اگر چاند کے ثبوت کے لیے عدالت و شہادت کو ضروری قرار دیا جائے ،تو اکثر و بیشتر گواہیاں اور خبریں غیر معتبر قرار پائیں گی ؛کیوں کہ عدالت و ثقاہت سے متصف لوگ بہت کم ہیں ، اب اس سلسلے میں عدالت کی شرط لگا کر لوگوں کی گواہی و خبر کو غیر معتبر قرار دیا جائے یا شرطِ عدالت میں کوئی ترمیم کی جائے گی؟
مگر حضرات ِ فقہا نے اس سلسلے میں جس قدر عدالت کو شرط قرار دیا ہے، اس کے پیش ِنظر موجودہ دَور میں بھی عدالت کی تعریف میں کسی ترمیم کی ضرورت نہیں ۔
------------------------------
(۱) امداد المفتین: ۴۸۸
(۲) امداد المفتین:۴۸۸