فقیہ الملت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ سے بندے نے ایک مجلس میں سوال کیا، تو فرما یا کہ
’’جب وہاں آبادی ہی نہیں ، تو جواب کی کیا ضرورت ہے؟ بعض علما نے جواب میں فرما یا کہ ’’چاند والے زمین کو دیکھ کر رمضان و عید کریں گے؛کیوں کہ چاند پر زمین، چاند کی طرح دکھائی دیتی ہے۔
حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری دامت برکا تہم نے درسِ حدیث کی تقریر میں یہ بیا ن فرمایا،جب کہ بندہ ایک موقع پر حاضر ہوا تھا ۔
بعض علماء نے فرمایا کہ :چاند والے،زمین والوں کی اتباع کریں گے اور ظاہر ہے کہ چاند پر رہنے والے دیگر معاملات میں بھی زمین والوں کے تابع ہوں گے، تو اس میں بھی وہ اہلِ زمین کی اتباع کریں گے،راقم نے حضرت مولانا احمد رضا بجنوری رحمہ اللہ شارحِ بخاری سے بہ ذریعے خط اس سلسلے میں سوال کیا، تو یہی جواب دیا، احقر کا ر جحان بھی اسی کی طرف ہے ؛کیوں کہ حدیث میں ’’چاند ‘‘ دیکھنے پر روزہ و افطار کا مدار رکھا ہے،اب چاند کے قائم مقام زمین کو قرار دینا کسی دلیل سے ہی ہو سکتا ہے ، (ولم یُوجَد)
لہٰذا چاند والوں کے لیے بھی چاند ہی کی رؤیت پر مدار ہوگا ؛البتہ وہ خود نہ دیکھ سکیں ،تو اہلِ زمین کا اتباع کریں گے۔واللّٰہ أعلم۔
ابرآلود مطلع والے علاقوں کاحکم
جن علاقوں میں بالعموم مطلع ابرآلود رہتاہے اوربہت کم چاندکی رؤیت ۲۹/تاریخ کوممکن ہوتی ہے ،ایسی جگہوں پرہمیشہ ۳۰/دن کامہینہ شمارکرکے رمضان وعیدین کافیصلہ کرناصحیح نہیں ؛بل کہ ایسے علاقوں میں ان کے قریب کے علاقوں کی رؤیت کااعتبارکرناچاہیے؛ جب کہ مطلع دونوں کا ایک ہو، ہمیشہ تیس دن کااعتبار