متعین کرنے میں استعمال کیا جا سکے، جو چاند کے اول بار نظر آنے کے لیے کافی ہو ۔(۱)
ان جدید ماہرین ِفلکیات کے بیانات کا حاصل بھی وہی نکلا کہ’’ رؤیتِ ہلال کی یقینی پیش گوئی کے لیے کوئی حساب و اصول اور سائنسی طریقہ نہیں ہے‘‘، یہ بیانات بالکل تازہ اور ’’اپٹو ڈیٹ‘‘(Up to date) ہیں اوران سے ان لوگوں کے خیال کا بطلان ظاہر ہوگیا، جو کہتے ہیں کہ اس دورِ ترقی میں فلکیاتی علوم کی ترقی سے یہ بات ممکن ہوگئی کہ رؤیت ِ ہلال کو حساب کے ذریعے معلوم کر لیا جائے، ابھی ہم نے قدیم اہلِ حساب کے ساتھ جدید ماہرینِ فلکیات کے بیانات ملاحظہ کیے، جو سب کے سب اس پر متفق ہیں کہ رؤیتِ ہلال کے لیے کوئی حساب منضبط نہیں ہے اور نہ ممکن ہے۔
امکانِ رؤیت سے رؤیت ثابت نہیں ہوتی
غرض یہ کہ آج تک کسی ماہرِ فلکیات نے اس بات کا دعویٰ نہیں کیا کہ فلاں مہینے کا چاند فلاں سال میں فلاں تاریخ کو نظر آئے گا؛ البتہ ان لوگوں نے امکانِ رؤیت کا دعویٰ کیا ہے اور یہ بات معمولی عقل والا بھی سمجھ سکتا ہے کہ رؤیت کے وقوع اور رؤیت کے امکان میں بڑا فرق ہے؛ ماہرین ِفلکیات صرف اتنا بتاتے ہیں کہ فلاں مہینے کی فلاں تاریخ و دن میں رؤیت ِہلال کا امکان ہے؛ مگروہ یہ حتمی و قطعی فیصلہ نہیں دیتے اور نہ دے سکتے ہیں کہ فلاں تاریخ و دن میں رؤیت واقع ہو جائے گی، اسلام نے مدارِ صوم و افطار؛ وقوعِ رؤیت کو قرار دیا ہے،نہ کہ محض امکانِ رؤیت کو ۔
چناں چہ اوپر اس کی وضاحت کر چکا ہوں ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم
------------------------------
(۱) رؤیت ِہلال موجودہ دور میں :۱۷