اس لیے بہتریہی ہے کہ تراویح کی نمازمسجد میں اداکی جائے؛ لیکن اگرکوئی گھرمیں پڑھ لے، توکوئی گناہ نہیں ؛ البتہ جمہور مذہب پر مسجد کی جماعت کی فضیلت اس کوحاصل نہ ہوگی۔(۱)
اورجن علما کے نزدیک گھرمیں تراویح پڑھناافضل ہے ،ان کے مذہب پریہی افضل ہوگا؛ مگرجمہورکے مذہب کے خلاف کرنا اچھا نہیں ؛ البتہ اگرکسی مصلحتِ دینیہ کے پیش ِنظرگھرمیں جماعت بناکرتراویح پڑھی جائے، تواس میں کوئی برائی نہیں ہے؛مثلاً بچوں اوربیوی و دیگر گھرکی عورتوں کوتراویح کی عادت ڈالنے یاان کی سہولت کی خاطرایساکرلے، تومضائقہ نہیں ؛کیوں کہ بہت سے حضراتِ سلفِ صالحین سے منقول ہے کہ وہ گھرپر ہی تراویح پڑھتے تھے ،مثلاً حضرت عروہ ، حضرت قاسم ،حضرت سالم، حضرت نافع وغیرہ رضی اللہ عنھم کے بارے میں امام طحاوی رحمہ اللہ نے نقل کیاہے کہ وہ مسجد سے (فرض عشا) کے بعد لوٹ جاتے تھے اورلوگوں کے ساتھ مسجد میں نماز تراویح نہیں پڑھتے تھے ۔ (۲)
اس لیے اگردینی مصلحت کی پیش ِنظرگھر میں جماعت بنالی جائے، توکوئی حرج نہیں ہے ؛لیکن سستی کی وجہ سے ایسانہ کرناچاہیے ، تاکہ جمہورکی مخالفت لازم نہ آئے اور یہ بھی یادرکھناچاہیے کہ تراویح گھرمیں پڑھناہو،توبھی عشا کی نمازجماعت سے مسجد میں پڑھنا چاہیے ۔
تراویح کے لیے عورتوں کامسجد میں آنا
آج کل بہت سی مساجد میں عورتوں کے لیے تراویح کاانتظام کیاجاتاہے؛
------------------------------
(۱) قال:أما لوتخلف عنھارجل من أفراد الناس وصلی في بیتہ فقد ترک الفضیلۃ ، و إن صلی أحد في البیت بالجماعۃ لم ینالوا فضل الجماعۃ۔
(ردالمحتار:۲/۴۹۵)
(۲) شرح معاني الآثار: ۱/۳۵۰-۳۵۱