شیخ صالح بن فوزان رحمہ اللہ نے اس کا جواب یہ دیا کہ
’’ہر مسلمان اپنے ملک میں موجود مسلمانوں کے ساتھ روزہ وافطار کرے اور مسلمانوں پر اپنے علاقے میں رؤیت کا اہتمام کرنا لازم ہے اور وہ لوگ دوسرے ایسے علاقے کی رؤیت پر روزہ نہ رکھیں جو دوری پر واقع ہو ؛کیوں کہ مطالع مختلف ہیں اور اگر یہ فرض کیا جائے کہ کچھ مسلمان کسی غیر اسلامی ملک میں ہیں اور وہاں مسلمان نہیں ہیں ،جو رؤیت کا اہتمام کر یں ، تو وہ لوگ سعودیہ کے ساتھ روزہ رکھیں ، تو کوئی حرج نہیں ‘‘۔(۱)
یہ علمائے عرب میں سے معروف اصحابِ افتا کے چند فتاوے ہیں ، جن سے ان لوگوں کی غلطی واضح ہو گئی،جو یہاں یا کہیں اور رہتے ہوئے سعودی عرب کے چاند پر رمضان و عید کرتے ہیں ؛ لہٰذا ان کو اس طرح کی غلطی سے باز آنا چاہیے اور مسلمانوں
میں اختلاف و انتشار پھیلانے سے احتراز کرنا چاہیے۔
رؤیت ِہلال کمیٹی اگر فتوے کے خلاف کرے تو ؟
رؤیتِ ہلال کمیٹی میں کوئی شخص دینی علم رکھنے والانہ ہواوراگرہو،بھی تواس کی رائے غلبۂ آرا میں دب کر رہ جائے اورمفتی کے فتوے کے خلاف شہر کی رؤیت ِہلال کمیٹی اپناحکم نافذکرنا چاہے، توکیاکرناچاہیے؟
اس کاجواب یہ کہ رؤیتِ ہلال کمیٹی کومفتی کے فتوے کے ماتحت رہنااورکام کرناضروری ہے،ورنہ وہ کمیٹی شرعاً معتبرنہیں ہوگی اور اس کے
------------------------------
(۲) المنتقیٰ : ۳/۱۲۴