تھانوی رحمہ اللہ نے ایسا ہی بیان کیا ہے ۔ (۲)
اور اوپر کی صورت میں صرف قضا لازم آئے گی، کفارہ نہیں ، جیسا کہ تفصیل اوپر گزر چکی ہے۔
مانعِ حیض دوائیوں کارمضان میں استعمال
طب وڈاکٹری کی ترقیات نے جہاں اور بہت سی چیزوں کو ایجاد کیا ہے، وہیں ایسی دوائیوں کو بھی باہر لایا گیا ہے،جو حیض کے خون کو ایک عارضی مدت تک روک دیتی ہیں ، ان مانعِ حیض دوائیوں مثلاً(Primolut-N)اور (Duphaston) وغیرہ کے استعمال سے رمضان کے مہینے میں حیض کا خون بند ہوجائے، تو عورت کو اس مدت میں روزہ رکھنا ضروری ہوجائے گا ؛کیوں کہ مدت ِ حیض میں عورت کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ؛بل کہ حکم اس لیے تھا کہ خون جاری ہے، اب جب کہ خون کسی تدبیر سے بند ہو چکا ہے ،اس پر روزہ رکھنا اس مدت میں ضروری ہو گا اور روزے کے شوق سے عورت ان ادویہ کو استعمال میں لاکر اپنا خون بند کرلے، تو اس میں کوئی برائی نہیں ؛ بل کہ اچھی بات ہے ۔
رہا یہ مسئلہ کہ اس زمانے میں جب کہ ایسی دوائیاں ایجاد ہوگئی ہیں ،کیا ان دوائیوں کا استعمال رمضان میں عورت پر ضروری ہو گا؛ تاکہ روزہ رکھا جائے ؟جواب یہ ہے کہ ضروری نہیں ؛ کیوں کہ اس کے وجوب کی کوئی دلیل نہیں ۔
------------------------------
(۲) چناں چہ آپ لکھتے ہیں کہ :خود روزے کی حالت میں یہ چھلامفسدِصوم ہے؛لیکن اگرغیرِحالتِ صوم میں ہو،حالت ِصوم میں داخل بدن باقی رہے، تواس سے روزے میں کوئی خلل نہیں آتا۔ امداد الفتا ویٰ : ۲/۱۴۴