صدقۂ فطر میں نوٹ دینا
یہ بات مسلم و معلوم ہے کہ نوٹ خود مال نہیں ہے؛ بل کہ یہ دراصل اس مال کی سند اور چیک ہے، جو بہ ذمہ گورنمنٹ ہے؛اسی لیے اگر جلی کٹی نوٹ بتائی جائے، تو بھی پورامال مل جاتا ہے ؛الغرض نوٹ مال نہیں ؛بل کہ مال کی سند ہے اور صدقۂ فطر اور دوسرے صدقاتِ واجبہ میں یہ ضروری ہے کہ مستحق و محتاج کو صدقے کے مال کا مالک بنا دیا جائے ،اگر اس کو مال کا مالک نہ بنا یا گیا ،تو زکات و فطرہ وغیرہ ادا نہ ہوں گے ۔
اس حکم کے پیشِ نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج کل نوٹوں کا رواج بہت ہو گیا ہے اور بسا اوقات مہینو ں تک روپیہ دیکھنے کی نوبت ہی نہیں آتی؛بل کہ سارا کام و کاروبار نوٹ پر ہی چلتارہتا ہے اور جیسا کہ اوپر معلوم ہوا ،نوٹ خود مال نہیں ؛ لہٰذا اگر نوٹ کے ذریعے صدقۂ فطر دیا جائے، تو ظاہر ہے کہ مال نہیں ؛بل کہ مال کی سند اس کو دی گئی ہے، تو کیا اس صدقۂ فطر دینے والے کا صدقہ ادا نہ ہوگا ؟
اس سلسلے میں علما کا اختلاف ہے ۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ حضرت مفتی
------------------------------
---- اور یہ بات ہر حال میں موجود ہے ؛ لہٰذا جب علتِ منع موجود ہے، تو حکم بھی موجود و باقی ہے ۔
اب رہا یہ کہ لوگ سیدوں کو دوسرے مدات سے نہیں دیتے ، تو اس کے لیے ترغیب و تشویق دلانے کا اہتمام کرنا چاہیے اور بار بار توجہ دلانا چاہیے ، آخر سوچنے کی ضرورت ہے کہ یہی امت تو آج مدارسِ اسلامیہ اور مساجد کے لیے کروڑہا روپیہ خرچ کر رہی ہے اور ان کی تعمیرات پر خوب لگا رہی ہے اور یہ غیر ِزکات سے ہی خرچ کیا جا رہاہے ،تو کیا اگر لوگوں کو ترغیب دی جائے، تولوگ ان پر خرچ نہیں کریں گے ؟ لہٰذا بندے کے نزدیک ان حالات میں بھی سیدوں کو زکات کا جواز صحیح نہیں ہے