اور آج شہروں میں صورتِ حال کچھ ایسی ہی ہے ؛لہٰذا اس سے روزہ فاسد نہ ہو گا،بہ شر طے کہ بچنے کی اپنی بساط بھر کوشش کرلیا ہو اور اسی سے گھروں میں اور بعض فیکٹریوں میں چولہوں سے نکلنے والے دھویں کا حکم معلوم ہوگیا کہ جہاں تک ممکن ہو، وہاں تک بچنا چاہیے، ورنہ روزہ فاسد ہوجائے گا اور بچنا ممکن نہ ہو، تو پھر روزہ فاسد نہ ہوگا ۔
روزے میں نسوار(ناس)سونگھنے کا حکم
نسوار جس کوہمارے علاقوں میں ناس کہا جاتا ہے،اس کو سونگھنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؛چناں چہ حضرت مفتی عزیز الرحمان صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’نسوار شمیدن در انف نیز مفسدِ صوم است ۔‘‘
ناک میں ناس سونگھنا بھی روزہ کو فاسد کردیتا ہے ۔(۲)
وجہ اس کی یہ ہے کہ ناس سونگھنے سے ناس ناک کے ذریعے دماغ کے جوف میں پہنچتی ہے اور یہ معلوم ہے کہ جوفِ دماغ تک کسی چیز کا پہنچ جانا روزے کو فاسد کردیتا ہے؛ البتہ ناس کو ناک میں رکھ کر اس طرح نکال لیا گیا کہ وہ دماغ تک نہیں پہنچی، تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا؛ لیکن ناک میں رکھ کر ایسا نکال لینا کہ ناس کے اجزا دماغ تک نہ پہنچیں ،عادۃً دشوار ہے؛ اس لیے احتیاط اسی میں ہے کہ اس صورت میں بھی روزے کو فاسد قرار دیا جا ئے ،حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’نسوار کو ناک میں رکھ کر، اس طرح نکال دیا جائے کہ دماغ تک نہ پہنچے، تو بے شک وہ مفسد ِ صوم نہیں ؛ لیکن عرف ِعام کے اعتبار
------------------------------
(۲) فتاویٰ دار العلوم: ۶/۴۱۸