رؤیت ہوتاہے ؛مگراس وقت یہ محض امکان ہے ،ہوسکتاہے کہ یہ نظرآئے اوریہ بھی ہوسکتاہے کہ نظرنہ آئے ؛کیوں کہ رؤیت پر بعض عوامل اثراندازہوتے ہیں ؛ مثلاًمطلع کی کیفیت ،فضامیں گرد وغبار،مقامِ مشاہدے کامحلِ وقوع ، اسی طرح گرمی، سردی ، فضاکی نمی ،فضاکی خشکی ؛یہ سب باتیں رؤیت پراثراندازہوتی ہیں ؛لہٰذا محض امکانِ رؤیت پرمدارنہیں رکھا گیا؛بل کہ رؤیت ِحقیقی وواقعی پرمدار رکھاگیاہے ۔
خلاصۂ کلام
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ فلکیاتی علوم کی بنیادپررؤیت کامسئلہ حل نہیں کیا جاسکتااور جن حضرات نے ان کی ترقی کی طرف نظرکرکے یہ سمجھاہے کہ اس مسئلے کو ان علوم سے حل کیاجاسکتاہے ،یہ ان کی غلطی ہے اورخود اس فن کے ماہرین نے اقرارکیاہے کہ اب تک کوئی قابلِ وثوق ایساطریقہ ایجادنہیں ہواہے کہ جس سے شرعی رؤیت کی شرائط پوری ہوسکیں ۔فلکیاتی تحقیقات نے اب تک صرف مخصوص تاریخوں میں رؤیتِ ہلال کے امکان کوظاہرکردیاہے؛ مگرچوں کہ صرف امکان سے شرعی رؤیت کاتحقق نہیں ہوتا، جس پراحکام کامدارہے ؛ا س لیے اس کودرخوراعتنا نہیں سمجھاجاسکتا اور اس پراحکامِ صوم وافطارکامدارنہیں رکھاجاسکتا۔
ہوائی جہاز سے رؤیت ِ ہلال
ہوائی جہاز سے اڑ کر اگر چاند دیکھا جائے، تو یہ قابلِ اعتبار ہوگا یا نہیں اور ہوگا تو کس صورت میں ہو گا ؟ اس کی تفصیل یہ ہے کہ
ہوائی جہاز سے اڑ کر دیکھا ہوا چاند اس وقت قابلِ اعتبار ہوگا، جب کہ جہاز کی پرواز اتنی بلند نہ ہو کہ سطحِ زمین کے افق اور اس بلندی کے افق میں فرق ہو جائے، اگر