معائنہ کرائے اور علاج کرائے ،اگر اس سے افاقہ نہ ہو یا یہ صورت نہ بن سکے، تو اس کی گنجائش ہے کہ وہ گھر چلا جائے یا ڈاکٹر کے پاس جائے؛مگر اس سے اس کا اعتکاف فاسد ہو جائے گا ؛ مگر چوں کہ مجبوری سے ایسا کیا ہے، لہٰذا گنہ گار نہ ہو گا اور اس پر بعد میں قضا کرنا ضروری ہو گی، قاضی خاں رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:
’’ إذا خرج ساعۃً بعذر المرض لم یصرمستثنی عن الإیجاب؛ لأنہ لا یغلب و قوعہٗ فصار کانہٗ خرج بغیر عذر إلا أنہٗ لم یأثم في الخروج بعذر المرض‘‘(۲)
اسی طرح شامی اور ابن نجیم رحمھما اللہ نے بھی لکھا ہے۔(۱)
غرض ایسی صورت میں نکلنا مفسدِ اعتکاف ہے ؛البتہ وہ گنہ گار نہ ہوگا،ہاں بعد میں قضا کرلینا چاہیے۔
روزے کے بغیر اعتکاف
اگر کوئی شخص مرض کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکا ؛ مگر وہ اعتکاف کرنا چاہتا ہے، تو کیا بغیر روزے کے اعتکاف کرنا درست ہوگا ؟
اس سلسلے میں علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اعتکافِ مسنون کے لیے روزہ شرط نہیں ہے؛ کیوں کہ فقہائے کرام نے تصریح کی ہے’’ روزہ صرف نذر کے اعتکاف میں شرط ہے‘‘ ۔(۲)
------------------------------
(۲) الخانیۃ علیٰ ھامش الہند :۱/۲۲۳
(۱) البحر الرائق :۱/۳۰۳ ،الشامي :۲/۴۴۷
(۲) قال: لتصریحھم بأن الصوم إنما ھو شرط في المنذورفقط، دون غیرہٖ۔
(البحر الرائق :۲/۵۲۴)