فلکیاتی حساب پراعتماد، اجماع کے خلاف ہے
بل کہ علمانے تصریح کی ہے کہ فلکیاتی حساب پر اعتماد کرنا خلافِ اجماع ہے؛ گویا ان چند شاذ اقوال کو چھوڑ کر، پوری امت اس پر متفق ہے کہ اہلِ حساب کے قول پر اعتماد جائز نہیں ہے ؛ البتہ روافض کا قول ہے کہ حساب پر اعتماد کیا جائے، علامہ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ
’’ایک قوم ا س طرف گئی ہے کہ اس میں اہلِ حساب کی طرف رجوع کیا جائے اور یہ روافض ہیں ، علامہ باجی رحمہ اللہ نے فرمایا
کہ سلفِ صالح کا اجماع ان کے خلاف حجت ہے اور علامہ ابنِ بریزہ رحمہ اللہ نے کہا یہ ’’باطل مذہب ہے‘‘۔(۱)
علامہ ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق اس پر بہت طویل کلام کیا ہے، وہ ایک جگہ فرماتے ہیں :
’’بلاشبہ ہم دین ِاسلام میں سے اس بات کو بالاضطرار جانتے ہیں کہ روزہ ،حج ، عدت،ایلا؛ وغیرہ چاند سے متعلق احکام میں
------------------------------
(۱) قال العسقلاني: وذھب قوم إلیٰ الرجوع إلی أھل التسییر ، وھم ’’الروافض‘‘ ونقل عن بعض الفقہاء موافقتھم ، قال الباجي رحمہ اللہ :وإجماع السلف الصالح حجۃ علیھم ۔ وقال ابن بریزۃ رحمہ اللہ :وھو مذھب باطل ، فقد نھت الشرع عن الخوض في علم النجوم لأنھا حدس وتخمین لیس فیھا قطع ولا ظن غالب ، مع أنہ لو ارتبط الأمر بھا لضاق إذ لا یعرفھا إلا القلیل ۔
(فتح الباري: ۴/۱۶۳)