رہ جائے، تو چوں کہ ایک خط کا دوسرے کے خط سے مشابے بھی ہوتاہے؛ لہٰذا اس پر عمل کرنا جائز نہ ہوگا ؛چناں چہ’’ الأشباہ ‘‘ میں ہے ’’لایعتمد علی الخط‘‘ کہ خط پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔(۲)
مگر یہ اسی صورت میں ہے کہ تحریر پر اعتماد نہ ہو سکے اور صاحب ِ تحریر کی شناخت نہ ہو سکے اور اگر تحریر سے صاحب ِ تحریر کی شناخت ہوجا ئے، جیسا کہ عام طور پر ہو تا ہے، تو پھر فقہائے کرام کی تصریح کے مطابق اس پر عمل جائز ہے ۔
جب یہ خط کا مسئلہ واضح ہو گیا، تو اسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ فیکس کی خبر بھی اسی صورت میں قابلِ قبول ہوگی، جب کہ خط سے پوری طرح بھیجنے والے کی شناخت ہو جائے؛ورنہ اس پر عمل کرنا درست نہ ہو گا ۔
ای- میل (E Mail)کی خبر
Mail-E کی خبرکاکیاحکم ہے؟ یہاں اس کاذکربھی مناسب ہے ؛ میرے نزدیک اس کاحکم ٹیلی گرام اورٹیلکس کے مشابہ ہے ؛ کیوں کہ اس میں بھی بھیجنے والے کی کوئی تحریرنہیں ہوتی، جس سے یہ اندازہ لگایاجاسکے کہ یہ کس نے بھیجاہے؛ بل کہ ٹیپ شدہ حروف ونقوش ہوتے ہیں ،جس کوکوئی بھی ٹیپ کرکے روانہ کرسکتاہے۔
البتہ اس میں اورٹیلی گرام وٹیلکس میں ایک فرق ہے ،وہ یہ کہ Mail-E کے پتے سے اندازہ لگاناممکن ہے کہ کس نے بھیجاہے اوریہ کہ وہ ہماراشناساہے یانہیں ؛ نیزفوری طورپراس کی تصدیق حاصل کرنابھی آسان ہوتاہے ،اس کے برخلاف ٹیلی گرام وٹیلکس میں کوئی علامت ایسی نہیں ہوتی، جس سے بھیجنے والے کااندازہ
------------------------------
(۲) الأ شباہ و النظائر :۲ / ۳۰۶