غرض اس حدیث سے بھی واضح ہوا کہ ہلال کا مدار حساب پر نہیں ہے؛بل کہ حساب پر مدار رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔
چاند کو رؤیت پر معلق کرنے کی حکمت
اب رہی یہ بات کہ شرع نے چاند کو رؤیت پر کیوں معلق کیا اور حساب پر اس کا مدار کیوں نہ رکھا ؟
تو ا س کا جواب یہ ہے کہ شرع نے یہ حکم اور قانون بڑی حکمت و مصلحت کے پیش ِنظر بنایا ہے۔وہ یہ ہے کہ رؤیت ایک عام چیز ہے، جس میں ہر خاص و عام ، جاہل و عالم ،شہری و دیہاتی ، برابر حصّہ لے سکتا اور اپنی عبادات کو اس کے مطابق سر انجام دے سکتا ہے، اس کے بر خلاف ’’حساب‘‘ ہر کوئی نہیں جانتا اور نہ جان سکتا ہے، اگر اس پر چاند کا مدار رکھا جاتا، تو عبادات متعلقہ کی ادائے گی معدودے چند لوگوں کی رائے و فیصلے پر موقوف رہتی، جس میں سخت حرج اور انتہائی پریشانی ہے اور اسلام کا مزاج یہ نہیں کہ عوام کو تنگی و پریشانی میں ڈالے؛ بل کہ وہ سہولت و آسانی فراہم کرنا چاہتا ہے۔
اور دوسری وجہ یہ ہے کہ چاند کا حساب آج تک بھی منضبط نہیں اور اس کا کوئی اصول و قاعدہ دریافت نہیں ہو سکا ہے اور اہل ِحساب نے قدیم زمانے سے اس کا اعتراف کیا ہے کہ رؤیت ِہلال کس دن ہوگی ،اس کاقطعی فیصلہ کرنے کے لیے کوئی اصول اور ضابطہ دریافت میں نہیں آیا؛ جب اس کا کوئی ضابطہ ہی دریافت نہیں ہوا، تو اس بحث کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ حساب پر رؤیت ِہلال کو معلق کیا جائے یا نہ کیا جائے ۔
رؤیت ِ ہلال کے لیے کوئی فلکیاتی حساب منضبط نہیں
چناں چہ قدیم و جدید دونوں تحقیقات اس پر متفق ہیں کہ رؤیت ِ ہلال کے لیے کوئی