اس کا جواب یہ ہے کہ عام بازاری قیمت کا اعتبار ہوگا ،کنٹرول ریٹ (راشن) کا کوئی اعتبار نہیں ؛کیوں کہ شریعت کا مقصود یہ ہے کہ نصف صاع (یعنی پونے دوکلو) گیہوں مسکین کو پہنچ جائے یا اگر قیمت دی جائے، تو اس قیمت سے وہ بازار سے اگر چاہے، تو اتنی گیہوں خرید سکے اور یہ ظاہر ہے کہ راشن کارڈ ،ہر کسی کے پاس ہونا تو ضروری نہیں ؛ لہٰذا بازار سے خریدنے کے لیے عام بازاری قیمت دینا چاہیے۔
فتا ویٰ رحیمیہ میں ہے :
’’قیمت ادا کرنی ہو، تو بازاری دام سے ادا کرنی ہوگی،کنٹرول (راشن) کی قیمت معتبر نہیں ،فقیر کے ہاتھ میں اتنی رقم پہنچنی چاہیے کہ اگر وہ اس کے گیہوں خریدنا چاہے، تو پونے دو کلو گیہوں بازار میں مل جائیں ،کنٹرول (راشن) کے حساب سے قیمت دی جائے گی، تو بازار سے اتنی گیہوں نہیں ملیں گے ۔‘‘(۱)
غرض یہ کہ کنٹرول ریٹ کا اعتبار نہ ہوگا؛ بلکہ عام بازاری قیمت دینا چاہیے ،ہاں کوئی گیہوں ہی دینا چاہے تو اختیار ہے کہ وہ خواہ بازار سے خرید کر دے یا راشن کارڈ کے ذریعہ خرید کر دے،اس میں کوئی حرج نہیں ؛کیونکہ فقیر کے ہاتھ خود گیہوں پہنچ گئی ہے ۔
جہاں اشیائے منصوصہ نہ ملتی ہوں ، وہاں صدقۂ فطر کس طرح ادا کریں ؟
صدقۂ فطر کا پانچ چیزوں سے دینا شریعت میں منصوص ہے؛ یعنی شعیر (جو)تمر
------------------------------
(۱) فتاویٰ رحیمیہ:۵/۱۷۳۔۱۷۴