وہاں کے لیے حکم ہے، جہاں اس طرح کا رواج ہو ،ورنہ یہ حکم نہ ہوگا ۔
طویل الاوقات علاقوں میں روزے کے اوقات
انسانی آبادی کے بڑھتے ہوئے سیلاب نے اب ان علاقوں اور خطوں کو بھی آباد کر دیا ہے،جو برس ہابرس تک غیر آباد تھے اور لوگ وہاں ہونے کو ہلاکت و بربادی کا سبب قرار دیتے تھے؛ چناں چہ اب بعض ایسے علاقے بھی آباد ہو چکے ہیں ، جہاں کئی کئی ماہ تک سورج طلوع نہیں ہوتا یا غروب نہیں ہوتا،ایسے لوگوں کے لیے جو وہاں آباد ہیں ، روزے کے کیا اوقات ہوں گے؟ یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہے ۔
یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ طویل الاوقات علاقے دو قسم کے ہیں :
ایک وہ جہاں دن و رات کا مجموعہ چوبیس گھنٹوں کا ہوتا ہے ، اگر چہ دن و رات کے اوقات میں تناسب نہ ہو؛بل کہ فاحش فرق ہو ، جیسے لندن (London) برطانیہ (Britain) کا گرمی کے موسم میں دن بہت بڑا ہوتا ہے، یعنی ۱۷ / ۱۸/ گھنٹے کا دن ہوتا ہے ، ایسے علاقوں میں روزہ اسی حساب سے رکھنا چاہیے، جیسے عام علاقوں میں رکھتے ہیں کہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک ؛کیوں کہ ایسے علاقوں میں رہنے والوں کو اس کی عادت و مشق بھی ہوتی ہے، حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے ۔(۱)
------------------------------
(۱) چناں چہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ اس سلسلے میں طویل کلام فرماکرلکھتے ہیں کہ
ـ’’جس جگہ نہارکاطول بہ قدرِتحمل ِصوم ہواورفطرۃً ان کاتحمل ہم سے زائدہو -لأنھم معتادون بطول النھار، وطول أکثرالأعمال فیہ- وہاں روزہ رکھیں ۔ ( امداد الفتاویٰ:۱/۵۰۴)