تصریح کی ہے کہ ایک روزے کا فدیہ ایک فطرے کے برابر ہے ۔(۱)
لہٰذا موجودہ حساب کی رو سے اگر کوئی روزے کا فدیہ دینا چاہے، تو صدقۂ فطر کی جو مقدار اوپر لکھی گئی ہے، وہی دینا ہوگا؛یعنی ایک روزے کے بدلے پونے دوکلو گیہوں یا اس کی قیمت یا ساڑھے تین کلو جو یا کھجور یا اس کی قیمت دینا ہوگااوریہ احتیاطاًہے ، ورنہ ایک کلو۶۳۶گرام گیہوں یا اس کی قیمت یا تین کلو ۲۷۲ گرام جو یا کھجور یا اتنی قیمت دے دینا کافی ہوگا ۔
صدقۂ فطر سیدوں کو دینا
صدقۂ فطر صرف ان لو گوں کو دینا جائز ہے، جن کو زکات دی جاسکتی ہے اور جن کو زکات دینا جائز نہیں ، ان کو صدقۂ فطر دینا بھی جائز نہیں اور یہ معلوم ہے کہ سید ، (ہاشمی)کو زکات دینا جائز نہیں ؛ اس لیے صدقۂ فطر بھی ان کو نہیں دیا سکتا ، جیسا کہ علامہ شامی نے اس کی تصریح کی ہے ۔ (۲)
اگر موجودہ دَور میں جب کہ محتاج سیدوں کو اس کے سوا چارہ نہیں رہا کہ وہ زکات وصدقات وصول کر کے اپنا گزارہ کریں ، کیا اس حکم میں کسی ترمیم کی گنجائش ہے ؟
اس سلسلے میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ جائز ہے،علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
------------------------------
(۱) قال: الفدیۃ لکل یوم نصف صاع من بر۔(نورالإیضاح مع مراقي:۲۵۲)
قال: والشیخ الفاني الذي لا یقدرعلی الصیام یفطر و یطعم لکل یوم مسکیناً؛ نصف صاع من بر أو صاعاً من تمر أو شعیر۔ (الہدایۃ :۲/۲۷۰)
(۲) قال: [مصرف الزکاۃ والعشر]وھو أیضا مصرف لصدقۃ الفطر،فقال: [لاتصرف…إلیٰ بني ھاشم ](الدر المختار مع الشامي : ۳/۲۸۳،۲۹۹)