زندگی بسر کرنے والے اور ترقی یافتہ علاقوں میں سکونت پذیر ہیں ؛بل کہ ان فنون سے یکسر ناواقف اور آلاتِ جدیدہ سے کلیۃًبے بہرہ لوگ اور معمولی ،چھوٹے چھوٹے دیہات و قر یوں میں اور پہاڑوں اور دور افتادہ جزیروں میں بسنے والے بے شمار لوگ بھی ہیں ، اگر آلاتِ جدیدہ و فنونِ ریاضیہ سے رویتِ ہلال میں مدد لینا ضروری یا پسندیدہ و مستحب قرار دیا جاتا، تو ظاہر ہے کہ اس حکم کی تعمیل آج کے اس ترقی یافتہ دورمیں بھی سب کے لیے ممکن نہ تھی، غریب اور پسماندہ طبقات کے لوگ یا تو ترکِ واجب کے مرتکب ہوتے یا فضیلت سے محروم رہ جاتے؛ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلامی عبادات واعمال کی انجام دہی میں بھی غریب لوگ امیروں سے پیچھے رہ جاتے، ظا ہر ہے کہ غریب و امیر کا یہ فرق اسلامی روح کے سراسر خلاف ہے؛اس لیے اسلام نے عبادات کے لیے سادہ اور فطری اصول مقررفر مائے ہیں ؛ تاکہ ہر قسم کے لوگ بہ آسانی ان کو اختیار کرکے فرض ادا کرسکیں ؛البتہ جن کو یہ آلات میسر ہوں یا جو اِن فنون سے بہرہ یاب ہوں ؛ وہ اگر اِن فنون و آلات کو کام میں لائیں ، تو- اس شرط کے ساتھ کہ اسلامی اصول مجروح نہ ہوں -ان کو اجازت دی جائے گی ۔
غور کیجیے کہ یہ بات کیا اسلام کے محاسن میں شمار کرنے کے قابل نہیں ؟ مگر افسوس کہ آج کا جدت پسند طبقہ، اسلام کی اس فطری سادگی اور سہولت پسندی کو اسلام کے محاسن میں شمار کرنے کو تیار نہیں ہے۔
اختلاف ِ مطالع کا مسئلہ
قدیم زمانے سے یہ مسئلہ فقہائے کرام کے ما بین زیر ِبحث رہا ہے کہ چاند کے مطالع کا اختلاف (کسی جگہ چاند، کسی دن نظر آئے اور دوسری جگہ دوسرے دن) احکام میں مؤثر و معتبر ہے یا نہیں ؟