کہ نوٹ کے ذریعے صدقہ ادا کیا جائے اور یہ کہ اس سے زکات ادا ہو جائے گی؛ کیوں کہ نوٹ کا رواج اس قدر ہو گیا ہے کہ اب عرف میں نوٹ ہی کو مال و ثمن خیال کیا جاتا ہے؛ لہٰذا عرف کی بنا پر نوٹ کو مال کا حکم ہوگا؛جب کہ یہ مال ہے، تو اس کو دینے سے زکات و فطرہ ادا ہوجائے گا ؛حضرت علامہ عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ نے اپنے زمانے ہی میں نوٹ کو مال و ثمن کے قائم مقام قرار دیا ہے؛چناں چہ فرماتے ہیں کہ
نوٹ ہر چند کہ خلقۃًثمن (مال)نہیں عرفاًحکمِ ثمن میں ہے؛ بل کہ عینِ ثمن سمجھا جاتا ہے ۔(۱)
لہٰذا موجودہ دَور میں اسی کو افتا کے لیے اختیار کرنے میں سہولت ہے ۔(۲)
صدقۂ فطر میں کنٹرول ریٹ (Control Rate) کا اعتبار نہیں
شہروں میں حکو مت کی طرف سے کنٹرول ریٹ(Control Rate) پر لوگوں کی سہولت کے لیے اناج غلہ دیا جاتا ہے اور اس سے صرف وہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں ، جو راشن کارڈ(Ration Card)اپنے پاس رکھتے ہیں ،کنٹرول ریٹ پر دیا جانے والا اناج و غلہ بازاری عام قیمت کے لحاظ سے بہت ارزاں و سستا ہوتا ہے ،اس صورتِ حال میں سوال پیدا ہونا طبعی بات ہے کہ صدقۂ فطر میں گیہوں کی کونسی قیمت کا اعتبار کیا جائے ؟ بازاری عام قیمت کا یا کنٹرول ریٹ کا؟
------------------------------
(۱)مجموعۃ الفتاویٰ : ۲/۲۲۷
(۲) اسی رائے کوحضرت مفتی ظفیرالدین صاحب رحمہ اللہ مرتب فتاویٰ دار العلوم ، دیوبند اور صاحبِ’’ احسن الفتاویٰ ‘‘ نے بھی اختیارکیاہے۔
( فتاویٰ دارالعلوم دیوبند،حاشیہ : ۶/۸۳، احسن الفتاویٰ :۴/۲۶۶ )