نجوم کے قول پراعتماد نہ ہونے کی تصریح کی ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کاوجوب رؤیتِ ہلال پرمعلق ہے ، اس حدیث کی رو سے کہ ’’ صوموا لرؤیتہٖ ‘‘کہ چاند دیکھ کرروزے رکھو اورچاند کی ولادت رؤیت پر مبنی نہیں ہے؛ بل کہ فلکیاتی قواعد پر مبنی ہے اور یہ قواعد اپنی جگہ اگرچہ صحیح ہیں ؛ لیکن اگرکسی رات میں چاند کی ولادت ہو،تو کبھی وہ نظرآتاہے اورکبھی نظر نہیں آتا اور شارع نے روزے کے وجوب کورؤیت پرمعلق کیاہے، نہ کہ چاند کی ولادت پر ۔
علامہ شامی رحمہ اللہ کی اس عبارت سے یہ واضح ہواکہ تولید ِہلال الگ چیز ہے اور رؤیت ِہلال الگ چیز ہے،تولید ِہلال ،جس کو( NEW MOON ) کہا جاتا ہے ،اس سے صرف رؤیت کاامکان پایاجاتاہے، نہ کہ رؤیت کاوقوع اور شریعت نے محض تولیدہلال یاامکانِ رؤیت پر مدارِکارنہیں رکھا ہے؛بل کہ وقوعِ رؤیت پرمدارہے۔
رؤیت پراثراندازہونے والے عوامل
وجہ یہ ہے کہ امکانِ رؤیت کے باوجود ،بعض عوامل کی بناپررؤیت واقع نہیں ہوتی،علمائے فلکیات نے مسلسل تجربے اورمشاہدے کی بناپربیان کیاہے کہ چاند جب ۲۹/دن ،۲۱/گھنٹے ،۴۴/منٹ اور۳ /سکنڈمیں اپنی گردش پوری کرکے سورج سے جاملتاہے، تواس وقت اس کادکھائی دیناممکن نہیں ؛بل کہ اس کے بعد بھی تقریباً ۱۹/یا ۲۰/گھنٹے تک اس کانظرآناخارج از ا مکان ہوتاہے ، اس کے بعد اس کے نظرآنے کے امکانات شروع ہوتے ہیں اورعام طورپر ۲۱/یا ،۲۲ /گھنٹوں بعدہی وہ قابلِ