اور اگر ان دنوں میں روزہ رکھ لیں ، تو پھر احتیاطاً معمولی دنوں میں بھی قضا کرلیں ۔(۳)
ایک ملک سے دوسرے ملک کے سفر سے روزے و عید میں فرق
زمانہ ٔ حال نے ہوائی جہاز کے سفر کو جس قدر آسان اور عام کر دیا ہے ،اس کے نتیجے میں اب ساری دنیا ایک ملک ہی نہیں ، ایک شہر؛بل کہ گھر وآنگن کا مصداق نظر آتی ہے، اس صورتِ حال نے ایک مسئلہ یہ پیدا کردیا ہے کہ
۱- ایک شخص ایک دور دراز علاقے مثلاً: سعودی عرب یا امریکہ میں تھا، جہاں رمضان کا چاند مثلاً ہندوستان کے حساب سے ایک یا دو دن پہلے ہوا ،اس کے بعد یہ شخص وہاں سے درمیانِ رمضان میں ہندوستان آگیا ،اب یہ شخص اپنے حساب کے مطابق روزے پورے کر لے یا ہندوستان کے حساب کے مطابق سب کے ساتھ روزہ رکھ کر سب کے ساتھ عید کرے ؟
اس سلسلے میں قدیم فقہائے کرام کا کوئی کلام نہیں مل سکا ؛البتہ فقہاکے بیان کردہ اس جزئیے سے اس کا حکم مستنبط ہو سکتا ہے کہ اگر کسی نے چاند دیکھا ؛مگر اس کی گواہی اور خبر رد کردی گئی، تو وہ شخص خود توروزہ رکھے گا؛ مگر عید سب کے ساتھ کرے گا ، اگر چہ ایک دن بڑھ جائے ۔(۱)
------------------------------
(۳) امداد الفتاویٰ: ۱/۵۰۵
(۱) قال أبو البرکات النسفي:’’ ومن رأی ہلال رمضان أو الفطر ، و رد قولہٗ صام ‘‘۔ (الکنز مع البحر:۲/۴۶۰-۴۸۴)
وفي الدر المختار: [رأی] مکلف [ہلال رمضان أو الفطر و رد قولہ ] بد لیل شرعي [صام] مطلقاً وجوباً ، وقیل: نُدباً۔ (الدرالمختارمع الشامي :۳/۳۵۱)