میں سے ایک دو وقت کی امامت بھی تراویح کے ساتھ کرلے، تو اجرت لینا درست ہے ؛ مگر یہ بھی صحیح نہیں ؛ کیوں کہ ہر کام اس کے مقصد کے لحاظ سے صحیح یا غلط ہو تا ہے اوریہاں چوں کہ امامت مقصود نہیں ؛بل کہ تراویح میں قر آن سنانا مقصد ہے ، اس لیے مقصد ہی کا اعتبار کریں گے،امامت کا نہیں او ر اس مقصد پر اجرت درست نہیں ۔
الغرض! اس کے جواز کی کوئی صورت نہیں ہے؛اس لیے اس سے احتراز کر نا چاہیے، اس مسئلے پر تفصیلی کلام احقر کے رسالے ’’منکراتِ رمضان ‘‘میں دیکھا جاسکتا ہے ۔(۱)
نابالغ کی اقتدا، تراویح میں
نابالغ حافظِ قرآن کی اقتدا میں نمازِ تراویح پڑھنا درست نہیں ہے۔ تراویح میں نابالغ کی اقتدا کا مسئلہ اگر چہ اختلافی ہے کہ بعض مشائخ نے اس کی اجا زت دی ہے اور بعض نے اس کو نا درست قرار دیا ہے؛ لیکن صحیح اور مختار قول یہی ہے کہ’’ نابالغ کی اقتدا، کسی نماز میں بھی درست نہیں ‘‘۔
------------------------------
(۱) البتہ جو حفاظ تراویح پراجرت نہیں لیتے اور آمدورفت رکھتے ہیں یاقیام وطعام بھی کرتے ہیں ، توان کی آمدورفت اورقیام وطعام کے انتظام کاذمہ، ذمہ دارانِ مسجد پرعائد ہوگا؛چناں چہ اسی مسئلے کی بابت، حضرت اقدس سے سوال ہواکہ ہماری مسجد میں ایک حافظ صاحب قرآن پاک تراویح میں سناتے ہیں اور اس پر کوئی اجرت یا ہدیہ نہیں لیتے ، مگر وہ دور سے آتے جاتے ہیں اور اسکوٹر(Scooter) سے آمد ورفت کرتے ہیں ، تو کیا ان کے آمد و رفت کا خرچ مسجد والوں کے ذمے ہے اورکیایہ دینا جائز ہے؟ اس پرآپ نے تحریرفرمایاکہ ’’ حافظِ قرآن کو آمد و رفت کا خرچ دینا ،مسجد کے ذمہ داروں کی ذمہ داری ہے اور یہ دینا بلا شبہ جائز ہے ، اس کو اجرت نہیں سمجھا جائے گا ۔ ‘‘