اختلافِ مطالع کے معتبر ہونے یا نہ ہونے کا مسئلہ ان نظری مسائل میں سے ہے، جن میں اجتہاد کی گنجائش ہے اور اس میں ان حضرات کی جانب سے اختلاف ہوا ہے، جن کو علم و دین میں ایک شان حاصل ہے اور یہ وہ جائز اختلاف ہے، جس پر حق کو پاجانے والے کو دو اجر ایک اجتہاد کا اور ایک حق کو پانے کا ملے گا اور خطا کرنے والے کو ایک اجر ملے گا؛پس اس دین پر چودہ صدیاں گزر گئیں ، جس میں سے کبھی بھی ایک ہی رؤیت پر پوری امتِ اسلامیہ کا اتحاد ہوا ہو، یہ ہم نہیں جانتے ؛ لہٰذا کبارِ علما کی اس مجلس کا نظریہ یہی ہے کہ اس مسئلے کو اپنی سابقہ حالت پر رہنے دیا جائے اور اس موضوع کو نہ چھیڑا جائے اور یہ کہ ہر ملک کے لوگوں کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنے علما کے واسطے سے، ان میں سے جس رائے کو چاہیں اختیار کریں ۔(۱)
اس اصولی بحث کے بعد خاص زیر ِبحث صورت کے بارے میں بھی علمائے عرب کے فتاویٰ ملاحظہ کیجیے کہ وہ کیا فرماتے ہیں ؟
سعودی عرب کے معروف عالمِ دین اور وہاں کے مفتیٔ اعظم ’’علامہ شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ ‘‘کا فتویٰ نقل کرتا ہوں ،جو اس سلسلے میں نہایت واضح و بصیرت افروز ہے ،اسی قسم کے ایک سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ
’’الذي یظھر لنا من حکم الشرع المطھر،أن الواجب علیکم الصوم مع المسلمین لدیکم ؛ لأمرین: أحدہما : قول النبي صلی اللہ علیہ و سلم : (الصوم یوم تصومون والفطر یوم تفطرون والأضحیٰ یوم تضحون ) خرَّجہٗ أبو داود وغیرہ
------------------------------
(۱) بہ حوالہ: فتاویٰ اللجنۃ الد ائمۃ: ۱۰/۱۰۹-۱۱۱