ہے ؛لہٰذا یہاں کے لوگ یہاں کے مطلع کا اور وہاں کے لوگ وہاں کے مطلع کا اعتبار کریں ‘‘۔
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اسی رائے و نظرئے کو اختیار کیا ہے؛نیز’’ المجمع الفقہ الإسلامي (جدہ) ‘‘نے بھی اپنی قرار داد میں اسی کی تائید کی ہے،جیسا کہ ہم نقل کریں گے ، اس پر تفصیلی کلام ہماری کتاب ’’نفائس الفقہ‘‘ میں دیکھیے ؛تاہم ایک نقطۂ نظر کے مطابق یہ گنجائش ہے کہ کوئی سعودی عرب کا اتباع کرلے؛ مگر یہاں جس اہم پہلو پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ ایک شخص ایک ایسی بستی میں ہو،جہاں اہل ِعلم کی کمیٹی ہو اور وہ رؤیتِ ہلال کے بارے میں جان کاری لیتی ہو اور سب کے لیے ایک لائحہ سنا تی ہو اور وہاں کے مسلمان اس کمیٹی کے فیصلوں کا اعتبار کرتے ہوئے روزہ و عید کرتے ہوں ،ایسی جگہ میں کسی کا یہ نعرہ لگانا کہ سعودی میں جو فیصلہ ہوا ،ہم اس کی اتباع کرتے ہیں اور وہی قابلِ اتباع ہے ، یہ بات صحیح نہیں ہے۔ایک تو اس لیے کہ یہ کہنے والے سعودی کے علاوہ میں اگر چاند پہلے ہو، تو اس کو ماننے تیار نہیں ہوتے ؛ حال آں کہ اسلام میں سعودی کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں اور نہ کسی امام کا مسلک ہے کہ صرف سعودی کے چاند کا اعتبار ہے۔ دوسرے اس لیے کہ اس سے امت میں انتشار و اختلاف پیدا ہوتا ہے ، جو کہ صحیح نہیں ۔
یہاں ہم اس سلسلے کے چند اہم فیصلے و فتاویٰ نقل کرنا مناسب سمجھتے ہیں ،تاکہ بات واضح ہوجائے ،سب سے پہلے ہم سعودی عرب کے بڑے بڑے علما کی مجلس کا متفقہ فیصلہ نقل کرتے ہیں ، جس کو ’’ مجلس ھیئۃ کبار العلماء ‘‘ کہا جاتا ہے، اس مجلس نے جو فیصلہ کیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ
’’ چاند کے مطلع میں اختلاف کا ہونا ان امور میں سے ہے، جو حِسّاً و عقلاً معلوم ہیں اور اس میں کسی بھی عالم کا اختلاف نہیں ، ہاں ! اس میں اختلاف واقع ہوا ہے کہ اختلافِ مطالع کا اعتبار ہے یا نہیں ہے؟اور